جمعہ، 1 مئی، 2020

مغربی دنیامیں الحادکےبنیادی اسباب

0 تبصرے
عصر حاضر میں الحاد کا دقت نظر سے تجزیاتی و تحلیلی مطالعہ کرنے کی بہت ضرورت ہے ،اس سلسلے میں ملحدین کے پھیلائے ہوئے جزوی شبہات و اعتراضآت(جو اگرچہ بذات خود ایک اہم کام ہے) کی بجائے الحاد کی اساسیات اور اس کے متنوع اسباب پر نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ یعنی سب سے پہلے یہ بات کہ وہ کونسے اسباب ہیں جن کی بنا پر ایک شخص یا گروہ الحاد اختیار کرتا ہے ۔الحاد کے اسباب ایک تو جغرافیہ بدلنے سے بدل جاتے ہیں ،مغربی دنیا میں الحاد میں مبتلاء ہونے کے اسباب الگ ہیں جبکہ اسلامی دنیا میں اسلام کو چھوڑ کر الحاد اپنانے کی وجوہات بالکل علیحدہ ہیں ۔اس کے علاوہ خود شخصیات کی علمی ،ذہنی ،نفسیاتی اور عقلی سطح کے اعتبار سے بھی الحاد کے مختلف اسباب بن جاتے ہیں ۔اسی طرح الحاد کی اساسیات کا تجزیہ بھی ضروری ہے،کہ وہ کونسے بنیادی امور و دعاوی ہیں ،جن پر ملحدین کی دعوت الحاد کھڑی ہے ،ان امور کا ماخذو مصدر کیا ہے ،نیز الحاد کی ان “ایمانیات “کے بارے میں معاصر جملہ ملحدین کا نقطہ نظر ایک ہے یا الگ الگ ۔
اس وقت پوری دنیا میں نت نئے نظریات و افکار کا ماخذ و منبع “خطہ مغرب”ہے ،اور فکر و نظر کے حوالے سے مغرب و ہ شجرہ خبیثہ ہے ،جس کی شاخیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔(“مغربی دوست”اس پر چیں بہ جبیں نہ ہوں ،مغرب کی انسانیت بخش ایجادات کا ہمیں بھی اقرار ہے ،البتہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان ایجادات پر لگنے والے سرمایہ کے لیے “سونے کی کس کس چڑیا”کو شکار کیا گیا ) .”جدید الحاد”(دنیا میں دہریوں کا وجود ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ رہا ہے ،پر یہاں معاصر نظریہ الحاد کی بات ہورہی ہے ) بھی مغرب کی دین ہے ،اور وہاں سے یہ نظریہ پوری دنیا میں کاپی کیا گیا ۔اس لیے ہم اولین مغربی دنیا میں الحاد کے پھیلنے کے بنیادی اسباب و علل پر مختصرا بات کریں گے ۔اس سے بقیہ دنیا خصؤصا اسلامی دنیا میں الحاد کی وجوہ جاننے میں معاونت ملے گی ۔
مغربی الحاد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کے تین بڑے سبب سامنے آتے ہیں :
۱۔مغرب میں عیسایئت کی بطور مذہب کے شکست کے بعد جدید فلسفیانہ افکار جدیدیت ،مابعد جدیدیت اور سوشل سائنسز کی کھوکھ سے الحاد نے جنم لیا ۔ان ملحدین کا ایک طویل تاریخی پس منظر ہے ۔ اسلام کی پوری تاریخ کے اندر، اسلام کو ان دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو یورپ کو انکے غلط عقیدے کی وجہ سے کرنا پڑیں۔ بہت اہم مشکلات میں سے ایک مذہب اور سائنس کے درمیان خوفناک اختلافات تھے۔ مذہب اس بےرحمی کیساتھ سائنس سے جا ٹکرایا کہ کلیسا نے بہت سے سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا اس بنا پر کہ وہ انکی کتاب کے خلاف چل رہے تھے۔اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا… چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔
گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد (Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔( شیخ سلمان بن فہد العودہ)
مغرب میں صدیوں مذہب کو حکمرانی حاصل تھی ،لیکن اس حکمرانی نے انہیں اس دور کے پسماندہ ترین قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا تھا ،اسی لیے خود مغرب اپنے اس دور کو “dark ages”یعنی “تاریک زمانہ”کہتا ہے ۔ سولہویں صدی سے جب مذہب سے آزادی کی تحریک “اصلاح مذہب”کی شکل میں شروع ہوئی ،جو آہستہ آہستہ مذہب کے کلی انخلا پر منتج ہوئی ،اس وقت سے مغرب ترقی کی شاہراہ پر چڑھ گیا ،اور اب تک تسلسل کے ساتھ روز بروز آگے بڑھ رہا ہے ۔اس پور ے تاریخی عمل سے مغربی اہل علم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے ۔اور یوں مذہب و خدا دنیا کا کلی انکار سامنے آیا ۔اس راستے پر چل کر جو لوگ الحاد کا شکار ہوئے ،ان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو انہوں نے عیسائیت کی شکست کو “مذہب”کی شکست کے مترادف سمجھا ،حالانکہ کسی خاص مذہب کی ناکامی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مذہب نام کی ہر قسم ناکام ہوگئی ۔دوسرا دنیا کے دیگر مذاہب خصوصا اسلام کا گہرا مطالعہ اور اسلام کی ہزار سال کی تاریخ سے مکمل واقفیت نہیں تھی ۔اور اگر کوئی واقفیت تھی بھی ،تو مستشرقین کے واسطے سے تھی ،اور مسترقین کا “اسلامی سرمایہ ” اسلام کی بجائے اینٹی اسلام کو اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے ، اس لیے محض عیسائیت کی شکست سے انہوں نے یہ سمجھا کہ اب مذہب اور خدا کا دور ختم ہوگیا ۔
اس الحاد کے شکار لوگوں نے جب بھی بالغ نظری سے اسلام کا مطالعہ کیا ،تو انہوں نے اسلام کو گلے لگایا ۔آج جو مغربی دنیا میں اسلام جوق در جوق پھیل رہا ہے ،ان میں سے بڑی تعداد “سابق ملحدین”کی ہیں ۔کہ جب ان کے سامنے اسلام کی صحیح شکل سامنے آئی ،تو بلا جھجک اسے قبول کیا ۔یاد رہے کہ عموما لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید “عیسائی مذہب کے پیروکار”نے اسلام قبول کیا ،حالانکہ وہاں کے صحیح “مذہبی آدمی “کو اسلام سے اتنی ہی نفرت ہے ،جیسے کہ ایک کٹر اور بنیاد پرست مسلمان کو عیسایئت سے ۔۔۔مغرب میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے کا سبب وہاں کا “الحاد”ہی ہے ۔آج بھی اگر مغرب کے ایک “ملحد”کے سامنے سنجیدہ ،شستہ ،علمی و عقلی انداز سے اسلام کو پیش کیا جائے ،تو وہ اسے فورا قبول کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ۔پر مسئلہ یہ ہے کہ آج کی علمی زبان اور اصطلاحات میں اسلام کو مغربی دنیا کے سامنے کتنا پیش کیا گیا ہے ۔یہ ایک المیہ ہے ،امت مسلمہ کے تمام طبقات کا المیہ ،جملہ مکاتب فکر کا المیہ ۔۔
2۔مغربی دنیا میں الحاد کے پھیلنے کا دوسرا بڑا سبب علوم فلسفہ سے حد سے زیادہ اعتناء اور وسیع پیمانے پر فلسفیانہ افکار کی بازگشت ہے ۔کلیسا سے آزادی حاصل کرتے ہی مغربی اداروں میں”علمی سیلاب “آیااور خآص طور پر “اندلس مرحوم” کے اسلامی علمی ذخیرے کی مغربی زبانوں میں منتقلی اس کا سبب بنی ، اندلس کے “مکتب ابن رشد” کا سارا فلسفیانہ لٹریچر مغربی دنیا میں پھیلا ۔ اس کے علاوہ خود بھی مغربی دنیا میں متنوع علوم خصوصا فلسفیانہ علوم سے شغف کی ایک فضا پیدا ہوئی ،اور فلسفے کی ایک خآصیت ہے کہ یہ حاضر و محسوس کا گرویدہ اور “غائب و مستور”سے بیگانہ کرتی ہے ۔اسلامی تاریخ کے بڑے اور ٹھیٹھ فلاسفہ کے افکار کا اگر دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو بہت کم خوش قسمت ایسے ملیں گے ،جن کے افکار میں “الحاد ی جراثیم “نہ ہوں،اسلام کے زمانہ عروج میں “تہافت الفلسفہ”جیسی کاوشوں کا سبب یہی “جراثیم”ہی بنے ۔خالص فلسفیوں کو ایک طرف رکھ دیں ،اصولی و دینی علوم کے ماہرین میں سے جس نے فلسفہ کو زیادہ پڑھا ،وہاں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔اس کی مثال ہماری تاریخ میں”اعتزال کا مکتب”ہے ۔۔حق شاید ان دونوں کے درمیان ہے کہ نہ تو علوم عقلیہ پر کلیسا کی طرح مکمل پابندی سے مسئلہ حل ہوگا اور نہ جدید ذہن کی طرح اساسیات مذہب کو بھی تشکیک کی بھٹی سے گزارنے سے فائدہ ہوگا.. ماضی میں ماتریدی مکتب عقل و نقل کے حسین امتزاج کے حوالے سے بہترین مثال ہے۔
اس قسم کے شکار ملحدین کا حل “غزالی کی روش”ہے ۔ان ملحدین کا فلسفہ پر ایمان اسی وقت متزلزل ہوگا جب کوئی “غزالی وقت”فلسفہ کے محل پر “تہافت الفلسفہ”کے مجنیقوں سے “سنگ باری” کرے گا ۔ اس لیے ہمارے راسخ العقیدہ لوگوں کو فلسفہ مغرب سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی ۔ اس حوالے سے “انصاری سکول آف تھاٹ”( ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب اور ان کے تلامذہ و متوسلین سید خالد جامعی ،عبد الوہاب سوری،علی محمد رضوی،مولانا ظفر اقبال اور زاہد مغل صاحب)یہ کام کر سکتا ہے ،اگر ان کی توجہ “اسلامی مفکرین کی ٹھوکروں کی نشاندہی “(جو بذات خود ایک اہم کام ہے )سے ذارا آگے بڑھ کر براہ راست مغربی فلسفہ کی “نارسائی “پر مرکوز ہو جائے۔اس سلسلے مین مغرب کی ریاستی قوت کا غیر معمولی جبر بھی ایک چیلنج ہے۔ جب تک یہ ختم نہیں ہوتا، محض فکری کام اس ساری مہم کا ایک جز ہوگا۔ یونانی فکر کی طرف سے ہمیں کوئی تہذیبی چیلنج نہیں تھا جب کہ آج اس تہذیبی چلینچ کے ریلے میں ہر خاص وعام بہ رہا ہے، حتی کے ہم میں سے بہت سے وہ لوگ بھی “مغربی” ہیں جو “مشرقی” کہلاتے ہیں اور یہ مزاجی سانچے کسی فلسفے نے نہیں بنائے بلکہ تہذیبی بالادستی نے بنائے ہیں۔
3۔مغربی دنیا میں الحاد کا تیسرا سبب چند دہائیوں سے نہایت تیزی سے مقبول ہوتا” فلسفہ مابعد جدیدیت”ہے ۔مابعد جدیدیت کا فلسفہ “جدیدیت”کے رد عمل کے طور پر وجود میں آیا ۔ جدیدیت انسان کے کبر جبکہ مابعد جدیدیت اس پر ڈھٹائی کا اظہار ہے۔جدیدیت میں انسان کو یہ غرور ہوچلا تھا کہ میں حقیقت وغیرہ خود اپنے بل بوتے پر تلاش کرلوں گا۔ مابعد جدیدیت نے عاجزی کا اظہار کرکے یہ نہیں کہا کہ ہم حقیقت نھیں جان سکتے (جس سے چلو نبی کی گنجائش پیدا ہوجائے) بلکہ وہ یہ کہتی ہے کہ یہ حقیقت، سچ، اقدار وغیرہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے، ایسا کچھ ہے ہی نھیں۔ یہ سرکشی سے بھی آگے کی ڈھٹائی ہے۔
ما بعد جدیدیت کی تعریف ایک فلسفی لیوٹارڈ کے الفاظ میں “مابعد جدیدیت عظیم بیانات پر عدم یقین “ہے ۔مابعد جدیدیت کے علمبرادروں کے نزدیک اس دنیا میں اصول ،نظریات ،روایات ،اقدار،افکار ،آدرشوں اور سچائی و حقیقت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ،اور نہ ہی دنیا میں آفاقی سچائی اور حقیقت مطلقہ کا کوئی وجود ہے ،یہ سب چیزیں اضافی ہیں ،اضافی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سچائی ،حقیقت اور حق و خیر کا تعلق محض انفرادی پسند و ناپسند کے ساتھ ہے ۔ہر شخص کی سچائی ،ہر شخص کا خیر اور ہر شخص کا حق الگ الگ ہے ۔اس لئے آفاقی سچائی کا تصور محض ایک دعوی اوردیو مالائی داستان ہے ۔مابعد جدیدیت کے فلسفے کا اثر یہ ہے کہ آج کے انسان کی دلچسپی محض اپنے احساسات ،جذبات اور عملی مسائل کے ساتھ محدود ہو کر رہ گئی ہے ،آج کے انسان کے نزدیک زندگی کی تمام بحثیں مسئلہ اور حل کانام ہیں ،افکار ،نظریات اور آیئڈیالوجی کے مباحث محض نظری ہیں ۔جن کا عملی زندگی کی تشکیل اور مسائل کے حل میں کوئی کردار نہیں ہیں ۔آج کے انسان کے نزدیک اصول ،نظریات ،اقدار ،روایات و افکار ماضی کی باتیں ہیں ۔اس لئے بعض مفکرین نے مووجودہ دور کو “عدم نظریہ کا عہد”کہا ہے۔جبکہ مذہب( خواہ جو بھی ہو ) کی بنیاد ہی مخصوص نظریات ،خآص افکار ،متعین آدرشوں اور محدود خیالات و تصورات پر ہوتی ہے ۔اس لیے مسئلہ اور حل کے خوگر آج کے انسان کے نزدیک مذہب کے عقائد و نظریات “دیومالائی داستانیں “ہیں ۔مابعد جدیدیت کا فلسفہ بعض وجوہ سے تحریک تنویر ،تحریک رومانیت اور مغرب سے پھوٹنے والی پچھلی دو صدیوں کی دیگر فلسفیانہ تحریکوں کی بنیاد پر قائم “جدیدیت”سے زیادہ خطرناک ہے ۔ما بعد جدیدیت کاا ثر صرف مذہب پر نہیں پڑا ،ادب ،ثقافت ،صحافت ،سیاست حتی کے تعلیم تک پر اس کے اثرات پڑے ۔آج اگر ریٹنگ کے چکر میں ہمارے ٹی وی چینل اقدار ،روایات ،اخلاق بلکہ بسا اوقات ملکی قانون کو پامال کرتے ہیں ،ہمارے سیاستدان “چڑھتے سورج کے پجاری “بن گئے ہیں ،اور سال میں دو دو پارٹیاں بدلتے ہیں ،ہمارے صحافی و کالم نگار ایک سال میں بسا اوقات تمام اخباروں کا چکر کاٹ کر واپس پہلے اخبار تک پہنچ جاتے ہیں ،ہمارے ہاں تعلیم کی “خرید و فروخت”کا بازار گرم ہے ،اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ معاشرہ ایک دیانت دار صحافی ،کھرے سیاستدان ،نظریاتی کالم نگار اور ایک مخلص ٹیچر و پروفیسر کو اس حوالےسے “احمق” سمجھتا ہے کہ اس نے اصولوں ،نظریات اور ذہن میں موجود خیالات و تصورات کی بنا پر مال ،دولت اور عزت کو ٹھکرایا ۔آج بھی اچھے خآصے پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کا ذہن یہ ہے کہ معاشرے کا کامیاب فرد وہی ہے ،جس نے دو چار روپیہ کمایا ،ایکا اچھی سی کوٹھی کھڑی کی ،اونچے عہدوں تک پہنچ گیا ،اور زندگی میں لذت کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کیے ،تو وہ “کامیاب”شخص ہے ،خوواہ اس کے لیے اس نے نظریات ،اصولوں اور اپنے رسوم و روایات کو مکمل طور پر ہی ذبح کیؤں نہ کیا ہو ۔ یہ سب فلسفہ ما بعد جدیدیت کا تباہ کن اثرات ہیں ۔
استفادہ تحریر : سمیع اللہ سعدی
کاپی : https://ilhaad.com/

جمعرات، 30 اپریل، 2020

مغرب میں الحاد کی ابتداء کیسے ہوئی ؟

0 تبصرے

اسلام کی پوری تاریخ کے اندر، اسلام کو ان دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو یورپ کو انکے غلط عقیدے کی وجہ سے کرنا پڑیں۔ بہت اہم مشکلات میں سے ایک مذہب اور سائنس کے درمیان خوفناک اختلافات تھے۔ مذہب اس بےرحمی کیساتھ سائنس سے جا ٹکرایا کہ کلیسا نے بہت سے سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا اس بنا پر کہ وہ انکی کتاب کے خلاف چل رہے تھے۔
اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا… چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔
گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد (Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔
اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دوسری طرف اسلام کی تاریخ میں آپکو ایسا کچھ نہیں ملتا۔ اسلام نے ہمیشہ سائنسی تحقیقات کیلئے دروازے کھلے رکھے ہیں اور دنشوارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سائنسدان عموماً بہت سے خلفاء کے دربار اور اسمبلیوں میں خصوصی مہمان ہوتے اور انکی سرپرستی میں شاہی تحائف اور مراعات کا ایک منصفانہ حصہ وصول کرتے۔
مسلم دنیا کی اپنی طویل تاریخ میں کبھی بھی سائنسدانوں کو اس ظلم و ستم، پابندیوں اور جانچ-پڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسا کہ یورپ میں انکے ساتھ ہوا۔ چرچ نے مذہب کے نام پر لوگوں کیساتھ جو برا برتاؤ کیا، انکے مال کا ایک بڑا حصہ ان سے چھین لینا، انکی دانشورانہ زندگیوں کو محدود کردیا، مفکروں اور سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا، اسلام کو کبھی ان خرابیوں سے نہیں گزرنا پڑا۔ اسکے برعکس، مسلمان تاریخ میں سائنس اور مذہب کے درمیان دوستی دیکھنے کو ملتی ہے کہ پہلی وحی ہی “پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا” ہے۔ سائنس اسلام ہی کے دئے گئے ثمرات میں سے ایک ہے۔
آج کی سائنس الله کے حکم؛ پڑھنے، سیکھنے سکھانے اور غور و فکر، بجا لانے کا ہی نتیجہ ہے۔ وہ لوگ جو سیکولرزم کو مسلم دنیا میں لانے کے خواہاں ہیں، اسلامی دنیا کی مذہبی تاریخ اور یورپ کی مذہبی تاریخ کے اس بڑے فرق کو نظرانداز کرتے ہیں جہاں سے سیکولرزم نے جنم لیا۔
مستفاد: شیخ سلمان بن فہد العودہ کی ایک انگریزی تحریر سے اقتباس

حضرت شیخ الہند اور عصر حاضر کے چیلنجز ۔محمد عیسیٰ منصوری ‏، چیرمین، ورلڈ اسلامک فورم لندن

0 تبصرے
دار العلوم دیوبند جہاں شیخ الھند نے جہاں سے تعلیم حاصل کی

برصغیر میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بعد حضرت شیخ الہند محمودحسن دیوبندی کی خدمات سب سے نمایاں ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ملتِ اسلامیہ کو رام راج یا برہمن سامراج کا لقمہ تر بننے سے بچایا اور حضرت شیخ الہند نے برصغیر میں برٹش امپائر کے استحکام اور اسلام کے خلاف انگریز ہندو ملی بھگت کے بعد ملتِ اسلامیہ کی بقاء و رہنمائی کا پروگرام دیا برصغیر کی تاریخ میں آپ کا کردار سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، آپ نہ صرف مدرسہٴ دیوبند کے پہلے طالب علم تھے؛ بلکہ بانی مدرسہ دیوبند حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے حقیقی علمی، فکری وعملی جانشین بھی تھے۔ ۱۸۵۷/ کی شکست کے بعد برٹش امپائر اور برہمن سامراج نے ملی بھگت کرکے ملت اسلامیہ کو غلام اور شودربنانے کی منصوبہ بندی کرلی تھی، ملتِ اسلامیہ ہند کسی محاذ پر دشمن کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی اور حوصلہ ہارچکی تھی؛ کیونکہ ۱۸۵۷/ میں علماء، مشائخ اور دینی جزبہ رکھنے والے مسلمان ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں قتل وپھانسی پر چڑھ گئے یا کالا پانی وسلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیے گئے، ایسے نازک حالات میں ملتِ اسلامیہ کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کردینے والا یہ جاں فروش طبقہ (علمائے حق) ملت کے زخموں کو مندمل ہونے اور ایک نئی نسل کی تیاری کے لیے نئی حکمت عملی پر عمل شروع کردیا، وہ حکمتِ عملی یہ تھی کہ کچھ عرصہ کے لیے دشمن کے سامنے سے ہٹ کر اسے غافل کردیا جائے اور تعلیم و تربیت اور جہاد سے لیس ایک اور نسل تیار کی جائے، اس مشن کی خاطر دیوبند میں مدرسہ اور گنگوہ میں خانقاہ کے نام سے کام شروع ہوا، بقول حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی: ”میں نے (دشمن کو دھوکہ میں رکھنے کے لیے) اپنے مشن پر علم کی چادر ڈال دی ہے“ اور بقول حضرت شیخ الہند: ”حضرتُ الاستاذ نے یہ مدرسہ کیا محض درس وتدریس کے لیے قائم کیا تھا؟ بلکہ شاملی کی شکست کے بعد تلافی کے لیے یہ پُرحکمت اقدام تھا“۔
          آج بھی ہم حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی کی پالیسی وحکمت عملی کے دور میں ہیں، برصغیر میں دین کے تمام تر شعبوں کا سلسلہ حضرت شیخ الہند کی ذات پر منتہی ہوتا ہے، حضرت تھانوی ہوں یا علامہ انورشاہ کشمیری، حضرت مدنی ہوں یا مولانا محمد الیاس یا مولانا شبیر احمد عثمانی۔ بیسویں صدی کے تقریباً سب ہی اکابر حضرت شیخ الہند کے شاگرد اور تربیت یافتہ تھے، ان اکابر نے ملتِ اسلامیہ کے تحفظ وبقاء احیاء وسربلندی کے لیے الگ الگ محاذ سنبھالا، حضرت مدنی کا اصل محاذ یہ تھا کہ برصغیر اور عالم عرب سے انگریز کو نکالا جائے۔ حضرت تھانوی کا اصل کام تصوف کے متعلق، حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ کے ادھورے کام کی تکمیل تھی یعنی تصوف کو بدعات ومحدثات عجمی وبیرونی اثرات سے پاک وصاف کرکے قرآن وسنت کے عین مطابق بنادیا جائے۔ حضرت مولانا الیاس کا اصل کام ملت اسلامیہ کو کلمہ نماز اور دین کی مبادیات تک سے دور ہوگئی تھی ان کے ایمان کو تازہ اور قوی کرکے انھیں پورے دین پر مستقیم کردیا جائے، حضرت علامہ انورشاہ کشمیری نے ایسے دور میں عالمِ اسلام سے حدیث اور علومِ حدیث ختم ہورہے تھے، ملت اسلامیہ میں حدیث کے علوم کا احیاء کیا وغیرہ وغیرہ یہ سب ہی اکابر حضرت شیخ الہند کے شاگرد تھے۔
          بانیِ مدرسہ دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کو ملت اسلامیہ ہند کی بقاء وسربلندی کے لیے خاکہ تیار کرنے کے بعد زیادہ وقت نہیں ملا،آپ چالیس سال کی عمر ہی میں جوارِ رحمت میں پہنچ گئے، آپ کے مشن کی تکمیل حضرت شیخ الہند نے کی۔ آج دیوبندیت کے لیے اگر کوئی ہستی کامل آئیڈیل ونمونہ ہے تو وہ حضرت شیخ الہند کی ذات گرامی ہے، دیوبندیت نام ہے چار اوصاف کا: (۱) علم کامل (۲) عمل کامل (۳) تقویٰ کامل (۴) حمیت وغیرت کامل۔ آج ہم علمی عملی فکری ہراعتبار سے حضرت شیخ الہند کے دور میں ہیں۔ آج برصغیر کے تمام شعبوں میں کام کرنے والے علماء آپ کے شاگردوں کے تیار کردہ ہیں۔
          یاد رہے حضرت شیخ الہند کی جدوجہد صرف مسلمانان برصغیر کے لیے نہیں؛ بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے تھی، آپ خوب سمجھتے تھے کہ برصغیر سے انگریز کے قدم اکھڑتے ہی وہ عرب اور دیگر مسلم ممالک پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے گا؛ چنانچہ آپ نے اپنے راز دار وشاگرد رشید حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کو جس مشن پر روانہ کیا تھا وہ عالمی مشن تھا، جس میں جرمنی (یورپ) سے اسلحہ خلافت عثمانیہ سے عسکری مدد، افغانستان سے راہ داری وفوجی اور قبائلی علاقوں سے جاں باز سپاہی لے کر پورے برصغیر کو انگریزوں سے آزاد کروانا تھا، حکومت کو اپنے خفیہ اداروں سے تھوڑی سی بھنک مل گئی، اسی لمحہ ڈاکٹر انصاری صاحب نے خفیہ میسج بھیجا، آپ گرفتاری سے قبل فوراً حجاز نکل جائیں، حجاز میں آپ خلافتِ عثمانیہ کے ترکی گورنر (مدینہ) غالب پاشا اور ان کے واسطہ سے خلافتِ عثمانیہ کے وزیر جنگ انور جمال پاشا سے ملاقات کرکے اپنے مشن کو آگے بڑھارہے تھے، دوسری طرف برطانوی شعبہ انٹلیجنس نے لارنس آف عربیہ کے ذریعہ عربوں کو ترکوں سے آزادی کا جھانسہ دے کر حجاز میں ترکی کے مقرر کردہ حکمران شریف مکہ کو غداری پر آمادہ کرلیا۔ خلافت عثمانیہ کے ان غداروں نے حضرت شیخ الہند اورآپ کے رفقاء کو قید کرکے برطانیہ کے حوالے کردیا، اس طرح آپ تقریباً ساڑھے تین سال مالٹا میں قید رہے، آپ نے قید میں جو صعوبتیں اٹھائیں، بڑھاپے میں آپ کا جسم زارونزار ہوگیا اور متعدد موذی امراض لگ گئے؛ چنانچہ رہا ہوکر ہندوستان واپس ہوئے تو جسم کی ساری توانائی نچڑچکی تھی، بہ مشکل ساڑھے پانچ ماہ زندہ رہے وہ بھی مسلسل صاحبِ فراش اور وجع المفاصل، پیچش، بواسیر، تپ لرزہ جیسے متعدی موذی امراض کا شکار رہ کر؛ لیکن آپ اپنے مقاصد سے ذرا غافل نہیں ہوئے، آپ کی فکر وکارکردگی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنی فکر، حکمت عملی اور پالیسی کے اعتبار سے اس وقت عالم گیریت (گلوب لائزیشن) کے دور میں تھے جب یورپ محض نیشنلزم (وطنیت) کے دور میں تھا۔
          آپ ۸/جون ۱۹۲۰/ کو مالٹا سے رہا ہوکربحری جہازکے ذریعہ ممبئی پورٹ پہنچے، ممبئی میں دو روز نہایت مصروف گذارے، بندرگاہ سے مولانا شوکت علی اور تحریک خلافت کے ہزاروں پرجوش رضاکار شان دار جلوس کی شکل میں خلافت کمیٹی کے مرکزی دفتر واقع محمد علی روڈ لے گئے، ممبئی میں بھارت کی اہم سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں اور مشاہیر سے آپ نے ملاقاتیں کیں جن میں مہاتما گاندھی اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی جیسے رہنما شامل تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پورے برصغیر میں حضرت شیخ الہند کے مقام ومرتبہ کا کوئی رہنما نہیں تھا، نہ صرف طبقہ علماء نے؛ بلکہ کانگریس، کمیونسٹ وشوشلسٹ پارٹیوں سمیت سب ہی نے آپ کو اپنا عظیم رہنما تسلیم کیا۔ دیوبند جاکر بھی آپ تمام سیاسی لیڈروں سے رابطہ میں رہے؛ لیکن مدرسہٴ دیوبند کو حکومت کے غیض وغضب سے بچانے کے لیے آپ نے اپنے رابطے انتہائی خفیہ رکھے، آپ دیوبند میں مدرسہ سے دور ایک مکان میں سکونت پذیر ہوئے، جسے کوٹھی کہا جاتا تھا، کانگریس کمیونسٹ وشوشلسٹ اور دیگر پارٹیوں کے رہنما حضرت شیخ الہند سے ملاقات ومشورہ کے لیے عموماً گہری رات کے بعد خاموشی سے آتے اور کوٹھی میں ٹھہر جاتے آپ آدھی رات کے بعد ان سے چپکے سے ملاقات فرمالیتے، سرحد کے خدائی خدمت گار (خان عبدالغفار خان) کو حکم تھا کہ دیوبند نہ آئیں؛ بلکہ دیوبند سے پہلے یا بعد کے اسٹیشن پر اتریں، آپ وہیں پہنچ کر ملاقات کرلیں گے۔
          اسارتِ مالٹا کے دوران آپ ملتِ اسلامیہ کی سربلندی کے لیے مسلسل غور وخوض فرماتے رہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں واپسی پر آپ نے اپنی پالیسیوں (حکمت عملی) کو یکسر تبدیل فرمادیا، آپ کی نئی حکمت عملی وپالیسی کے دوبنیادی ستون تھے، ایک عسکریت کے بجائے ڈائیلاگ، آپ نے دیکھا کہ عالمِ کفر دن بدن طاقتور اور عالم اسلام کمزور وبے بس ہوتا جارہا ہے اوراپنوں (مسلمانوں) میں غداری وبے وفائی آگئی (ریشمی رومال کی تحریک اپنوں کی غداری ہی سے ناکام ہوئی) چنانچہ ایک قابل جرنیل کی طرح آپ نے جنگ کی حکمت عملی تبدیل کی آپ مسلسل دیکھ رہے تھے کہ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے مسلمان جہاد کا نعرہ لگاکر برطانیہ عظمیٰ سے ٹکراکر پاش پاش ہوتے رہے؛ کیونکہ انگریز برادرانِ وطن (ہندو) کو ساتھ ملاکر مسلمانوں کی جہادی تحریکوں کو کچل دیتا تھا، ہندوستان میں ہندو انگریز کا ہاتھ تھام کر ایک مضبوط اور طاقتور قوم بن رہا تھا اور مسلمان ٹکراٹکراکر ختم ہورہے تھے، اسی لیے آپ کی نئی حکمت عملی یہ تھی کہ ڈائیلاگ کے ذریعہ برادرانِ وطن کو آزادی کی جدوجہد میں ساتھ لیا جائے، آپ جانتے تھے کہ مسلمان تو پیچھے رہ کر بھی اپنے حصہ سے زیادہ قربانیاں دیں گے؛ مگر ہندو قوم مسلمان لیڈرشپ میں قربانی نہیں دے گی، آنے والی قیادت کے لیے ہندو (مہاتما گاندھی) کو آگے کیا؛ کیونکہ جب تک اکثریت ساتھ نہیں دیتی انگریز کو برصغیر چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، آپ نے دوسری حکمت عملی یہ اختیار فرمائی کہ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم نے مسلمانوں کے مقتدر طبقات اور شرفاء کو انگریز کی سوچ وفکر اور طرز زندگی کا وارث بنادیا تھا، آپ نے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی طرف دستِ شفقت بڑھاکر انھیں اپنا ترجمان بنالیا، اس طرح انھیں اپنی سوچ وفکر اورامنگوں کا وارث بنالیا؛ اس لیے آپ انتہائی ضعف وبیماری کے باوجود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لے گئے؛ تاکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنے درد وفکر میں شریک کرکے انھیں انگریز کے خلاف کھڑا کریں۔ آپ کے ضعف ونقاہت کا یہ عالم تھا کہ آپ دیوبند سے پالکی میں لیٹ کر روانہ ہوئے، نقاہت کی وجہ سے خطبہٴ صدارت نہیں پڑھ سکتے تھے جو مولانا شبیراحمد عثمانی نے پڑھا جس میں آپ نے فرمایا:
          ”میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت ونقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر؛ اس لیے لبیک کہا کہ اپنی ایک گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں۔“ پھر فرمایا: ’اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا۔“
          اسی خطبہٴ صدارت میں آپ نے فرمایا: ”آپ میں جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی بھی وقت کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا! ہاں بے شک یہ کہا کہ انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا کہ لوگ نصرانیت (مغربیت) کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب یا مذہب والوں کا مذاق اڑاتے یا حکومتِ وقت کی پرستش کرنے لگتے ہیں، ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا اچھا ہے۔“
          آپ کے بے قرار دل سے نکلی صدا نے جدید طبقہ کے دل کو مسخر کرلیا؛ چنانچہ جب آپ نے ترکِ موالات یعنی برطانوی حکومت سے ہر طرح کا تعاون ختم کرنے کی اپیل کی تو یونیورسٹی کے بہت سے طلباء نے یونیورسٹی سے رشتہ توڑ لیا۔ یہ واقعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۲۰/ کا ہے، اس طرح دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ مسلمانوں کی دوسری بڑی یونیورسٹی حضرت شیخ الہند کی بدولت وجود میں آئی۔ غرض حضرت شیخ الہند نے مالٹا سے واپسی پر برصغیر کی ملت اسلامیہ کو دو بنیادی پالیسیاں عطا کیں (۱) ڈائیلاگ (۲) جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو قریب کرکے انھیں اپنا ترجمان بنانا، اگر ہم ڈائیلاگ کی راہ پر ہوتے تو آج عالم گیریت کے دور میں اقوامِ عالم سے ڈائیلاگ کے ذریعہ قرآن کے مطابق انسانی مسائل کا حل پیش کررہے ہوتے، اسی طرح جدید تعلیم یافتہ طبقہ عالمی حالات کو جتنا سمجھتا ہے قدیم طبقہ نہیں اور جدید طبقہ کے پاس وہ زبان واسلوب ہے جسے اقوام عالم سمجھتی ہیں، صرف اس کے پاس قرآن وسنت کی صحیح رہنمائی نہیں ہے، اگر یہ دونوں چیزیں جمع ہوجائیں تو ملتِ اسلامیہ کی کشتی موجودہ حالات کے بھنور سے نکل سکتی ہے، کاش حضرت شیخ الہند کو زندگی نے کچھ اور مہلت دی ہوتی تو آپ کسی حد تک قدیم وجدید کی خلیج پاٹ دیتے، سب سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ طبقہٴ علماء نے حضرت شیخ الہند کے بعد آپ کی حکمتِ عملی فراموش کردی نہ ڈائیلاگ جاری رہا، نہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو قریب کرسکے؛ بلکہ دونوں طبقات میں دن بہ دن فاصلہ بڑھتا گیا۔
          حضرت شیخ الہند کے بعد آپ کے شاگردوں (جو بلاواسطہ یا بالواسطہ تقریباً تمام ہی علماء دیوبند ہیں) آپ کی جدید پالیسی کے دونوں نکات پر توجہ نہیں دی اگر طبقہٴ علماء ۱۹۲۰/ کے بعد حضرت شیخ الہند کی پالیسی کے دونوں نکات پر کاربند ہوکر جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنالیتے تو برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔
          بندہ گذشتہ دنوں حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کے ملفوظات پڑھ رہا تھا، حضرت بار بار نہایت رنج وغم سے فرماتے: ”مولوی ہارگیا“ اوریہ مولوی اس وقت تک ہارتا رہے گا جب تک حضرت شیخ الہند کی پالیسی پر نہیں آتا اور عصری تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوتا۔
حوالہ : ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الاول 1434 ہجری مطابق جنوری 2013ء