جمعہ، 1 مئی، 2020

مغربی دنیامیں الحادکےبنیادی اسباب

0 تبصرے
عصر حاضر میں الحاد کا دقت نظر سے تجزیاتی و تحلیلی مطالعہ کرنے کی بہت ضرورت ہے ،اس سلسلے میں ملحدین کے پھیلائے ہوئے جزوی شبہات و اعتراضآت(جو اگرچہ بذات خود ایک اہم کام ہے) کی بجائے الحاد کی اساسیات اور اس کے متنوع اسباب پر نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ یعنی سب سے پہلے یہ بات کہ وہ کونسے اسباب ہیں جن کی بنا پر ایک شخص یا گروہ الحاد اختیار کرتا ہے ۔الحاد کے اسباب ایک تو جغرافیہ بدلنے سے بدل جاتے ہیں ،مغربی دنیا میں الحاد میں مبتلاء ہونے کے اسباب الگ ہیں جبکہ اسلامی دنیا میں اسلام کو چھوڑ کر الحاد اپنانے کی وجوہات بالکل علیحدہ ہیں ۔اس کے علاوہ خود شخصیات کی علمی ،ذہنی ،نفسیاتی اور عقلی سطح کے اعتبار سے بھی الحاد کے مختلف اسباب بن جاتے ہیں ۔اسی طرح الحاد کی اساسیات کا تجزیہ بھی ضروری ہے،کہ وہ کونسے بنیادی امور و دعاوی ہیں ،جن پر ملحدین کی دعوت الحاد کھڑی ہے ،ان امور کا ماخذو مصدر کیا ہے ،نیز الحاد کی ان “ایمانیات “کے بارے میں معاصر جملہ ملحدین کا نقطہ نظر ایک ہے یا الگ الگ ۔
اس وقت پوری دنیا میں نت نئے نظریات و افکار کا ماخذ و منبع “خطہ مغرب”ہے ،اور فکر و نظر کے حوالے سے مغرب و ہ شجرہ خبیثہ ہے ،جس کی شاخیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔(“مغربی دوست”اس پر چیں بہ جبیں نہ ہوں ،مغرب کی انسانیت بخش ایجادات کا ہمیں بھی اقرار ہے ،البتہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان ایجادات پر لگنے والے سرمایہ کے لیے “سونے کی کس کس چڑیا”کو شکار کیا گیا ) .”جدید الحاد”(دنیا میں دہریوں کا وجود ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ رہا ہے ،پر یہاں معاصر نظریہ الحاد کی بات ہورہی ہے ) بھی مغرب کی دین ہے ،اور وہاں سے یہ نظریہ پوری دنیا میں کاپی کیا گیا ۔اس لیے ہم اولین مغربی دنیا میں الحاد کے پھیلنے کے بنیادی اسباب و علل پر مختصرا بات کریں گے ۔اس سے بقیہ دنیا خصؤصا اسلامی دنیا میں الحاد کی وجوہ جاننے میں معاونت ملے گی ۔
مغربی الحاد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کے تین بڑے سبب سامنے آتے ہیں :
۱۔مغرب میں عیسایئت کی بطور مذہب کے شکست کے بعد جدید فلسفیانہ افکار جدیدیت ،مابعد جدیدیت اور سوشل سائنسز کی کھوکھ سے الحاد نے جنم لیا ۔ان ملحدین کا ایک طویل تاریخی پس منظر ہے ۔ اسلام کی پوری تاریخ کے اندر، اسلام کو ان دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو یورپ کو انکے غلط عقیدے کی وجہ سے کرنا پڑیں۔ بہت اہم مشکلات میں سے ایک مذہب اور سائنس کے درمیان خوفناک اختلافات تھے۔ مذہب اس بےرحمی کیساتھ سائنس سے جا ٹکرایا کہ کلیسا نے بہت سے سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا اس بنا پر کہ وہ انکی کتاب کے خلاف چل رہے تھے۔اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا… چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔
گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد (Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔( شیخ سلمان بن فہد العودہ)
مغرب میں صدیوں مذہب کو حکمرانی حاصل تھی ،لیکن اس حکمرانی نے انہیں اس دور کے پسماندہ ترین قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا تھا ،اسی لیے خود مغرب اپنے اس دور کو “dark ages”یعنی “تاریک زمانہ”کہتا ہے ۔ سولہویں صدی سے جب مذہب سے آزادی کی تحریک “اصلاح مذہب”کی شکل میں شروع ہوئی ،جو آہستہ آہستہ مذہب کے کلی انخلا پر منتج ہوئی ،اس وقت سے مغرب ترقی کی شاہراہ پر چڑھ گیا ،اور اب تک تسلسل کے ساتھ روز بروز آگے بڑھ رہا ہے ۔اس پور ے تاریخی عمل سے مغربی اہل علم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے ۔اور یوں مذہب و خدا دنیا کا کلی انکار سامنے آیا ۔اس راستے پر چل کر جو لوگ الحاد کا شکار ہوئے ،ان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو انہوں نے عیسائیت کی شکست کو “مذہب”کی شکست کے مترادف سمجھا ،حالانکہ کسی خاص مذہب کی ناکامی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مذہب نام کی ہر قسم ناکام ہوگئی ۔دوسرا دنیا کے دیگر مذاہب خصوصا اسلام کا گہرا مطالعہ اور اسلام کی ہزار سال کی تاریخ سے مکمل واقفیت نہیں تھی ۔اور اگر کوئی واقفیت تھی بھی ،تو مستشرقین کے واسطے سے تھی ،اور مسترقین کا “اسلامی سرمایہ ” اسلام کی بجائے اینٹی اسلام کو اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے ، اس لیے محض عیسائیت کی شکست سے انہوں نے یہ سمجھا کہ اب مذہب اور خدا کا دور ختم ہوگیا ۔
اس الحاد کے شکار لوگوں نے جب بھی بالغ نظری سے اسلام کا مطالعہ کیا ،تو انہوں نے اسلام کو گلے لگایا ۔آج جو مغربی دنیا میں اسلام جوق در جوق پھیل رہا ہے ،ان میں سے بڑی تعداد “سابق ملحدین”کی ہیں ۔کہ جب ان کے سامنے اسلام کی صحیح شکل سامنے آئی ،تو بلا جھجک اسے قبول کیا ۔یاد رہے کہ عموما لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید “عیسائی مذہب کے پیروکار”نے اسلام قبول کیا ،حالانکہ وہاں کے صحیح “مذہبی آدمی “کو اسلام سے اتنی ہی نفرت ہے ،جیسے کہ ایک کٹر اور بنیاد پرست مسلمان کو عیسایئت سے ۔۔۔مغرب میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے کا سبب وہاں کا “الحاد”ہی ہے ۔آج بھی اگر مغرب کے ایک “ملحد”کے سامنے سنجیدہ ،شستہ ،علمی و عقلی انداز سے اسلام کو پیش کیا جائے ،تو وہ اسے فورا قبول کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ۔پر مسئلہ یہ ہے کہ آج کی علمی زبان اور اصطلاحات میں اسلام کو مغربی دنیا کے سامنے کتنا پیش کیا گیا ہے ۔یہ ایک المیہ ہے ،امت مسلمہ کے تمام طبقات کا المیہ ،جملہ مکاتب فکر کا المیہ ۔۔
2۔مغربی دنیا میں الحاد کے پھیلنے کا دوسرا بڑا سبب علوم فلسفہ سے حد سے زیادہ اعتناء اور وسیع پیمانے پر فلسفیانہ افکار کی بازگشت ہے ۔کلیسا سے آزادی حاصل کرتے ہی مغربی اداروں میں”علمی سیلاب “آیااور خآص طور پر “اندلس مرحوم” کے اسلامی علمی ذخیرے کی مغربی زبانوں میں منتقلی اس کا سبب بنی ، اندلس کے “مکتب ابن رشد” کا سارا فلسفیانہ لٹریچر مغربی دنیا میں پھیلا ۔ اس کے علاوہ خود بھی مغربی دنیا میں متنوع علوم خصوصا فلسفیانہ علوم سے شغف کی ایک فضا پیدا ہوئی ،اور فلسفے کی ایک خآصیت ہے کہ یہ حاضر و محسوس کا گرویدہ اور “غائب و مستور”سے بیگانہ کرتی ہے ۔اسلامی تاریخ کے بڑے اور ٹھیٹھ فلاسفہ کے افکار کا اگر دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو بہت کم خوش قسمت ایسے ملیں گے ،جن کے افکار میں “الحاد ی جراثیم “نہ ہوں،اسلام کے زمانہ عروج میں “تہافت الفلسفہ”جیسی کاوشوں کا سبب یہی “جراثیم”ہی بنے ۔خالص فلسفیوں کو ایک طرف رکھ دیں ،اصولی و دینی علوم کے ماہرین میں سے جس نے فلسفہ کو زیادہ پڑھا ،وہاں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔اس کی مثال ہماری تاریخ میں”اعتزال کا مکتب”ہے ۔۔حق شاید ان دونوں کے درمیان ہے کہ نہ تو علوم عقلیہ پر کلیسا کی طرح مکمل پابندی سے مسئلہ حل ہوگا اور نہ جدید ذہن کی طرح اساسیات مذہب کو بھی تشکیک کی بھٹی سے گزارنے سے فائدہ ہوگا.. ماضی میں ماتریدی مکتب عقل و نقل کے حسین امتزاج کے حوالے سے بہترین مثال ہے۔
اس قسم کے شکار ملحدین کا حل “غزالی کی روش”ہے ۔ان ملحدین کا فلسفہ پر ایمان اسی وقت متزلزل ہوگا جب کوئی “غزالی وقت”فلسفہ کے محل پر “تہافت الفلسفہ”کے مجنیقوں سے “سنگ باری” کرے گا ۔ اس لیے ہمارے راسخ العقیدہ لوگوں کو فلسفہ مغرب سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی ۔ اس حوالے سے “انصاری سکول آف تھاٹ”( ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب اور ان کے تلامذہ و متوسلین سید خالد جامعی ،عبد الوہاب سوری،علی محمد رضوی،مولانا ظفر اقبال اور زاہد مغل صاحب)یہ کام کر سکتا ہے ،اگر ان کی توجہ “اسلامی مفکرین کی ٹھوکروں کی نشاندہی “(جو بذات خود ایک اہم کام ہے )سے ذارا آگے بڑھ کر براہ راست مغربی فلسفہ کی “نارسائی “پر مرکوز ہو جائے۔اس سلسلے مین مغرب کی ریاستی قوت کا غیر معمولی جبر بھی ایک چیلنج ہے۔ جب تک یہ ختم نہیں ہوتا، محض فکری کام اس ساری مہم کا ایک جز ہوگا۔ یونانی فکر کی طرف سے ہمیں کوئی تہذیبی چیلنج نہیں تھا جب کہ آج اس تہذیبی چلینچ کے ریلے میں ہر خاص وعام بہ رہا ہے، حتی کے ہم میں سے بہت سے وہ لوگ بھی “مغربی” ہیں جو “مشرقی” کہلاتے ہیں اور یہ مزاجی سانچے کسی فلسفے نے نہیں بنائے بلکہ تہذیبی بالادستی نے بنائے ہیں۔
3۔مغربی دنیا میں الحاد کا تیسرا سبب چند دہائیوں سے نہایت تیزی سے مقبول ہوتا” فلسفہ مابعد جدیدیت”ہے ۔مابعد جدیدیت کا فلسفہ “جدیدیت”کے رد عمل کے طور پر وجود میں آیا ۔ جدیدیت انسان کے کبر جبکہ مابعد جدیدیت اس پر ڈھٹائی کا اظہار ہے۔جدیدیت میں انسان کو یہ غرور ہوچلا تھا کہ میں حقیقت وغیرہ خود اپنے بل بوتے پر تلاش کرلوں گا۔ مابعد جدیدیت نے عاجزی کا اظہار کرکے یہ نہیں کہا کہ ہم حقیقت نھیں جان سکتے (جس سے چلو نبی کی گنجائش پیدا ہوجائے) بلکہ وہ یہ کہتی ہے کہ یہ حقیقت، سچ، اقدار وغیرہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے، ایسا کچھ ہے ہی نھیں۔ یہ سرکشی سے بھی آگے کی ڈھٹائی ہے۔
ما بعد جدیدیت کی تعریف ایک فلسفی لیوٹارڈ کے الفاظ میں “مابعد جدیدیت عظیم بیانات پر عدم یقین “ہے ۔مابعد جدیدیت کے علمبرادروں کے نزدیک اس دنیا میں اصول ،نظریات ،روایات ،اقدار،افکار ،آدرشوں اور سچائی و حقیقت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ،اور نہ ہی دنیا میں آفاقی سچائی اور حقیقت مطلقہ کا کوئی وجود ہے ،یہ سب چیزیں اضافی ہیں ،اضافی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سچائی ،حقیقت اور حق و خیر کا تعلق محض انفرادی پسند و ناپسند کے ساتھ ہے ۔ہر شخص کی سچائی ،ہر شخص کا خیر اور ہر شخص کا حق الگ الگ ہے ۔اس لئے آفاقی سچائی کا تصور محض ایک دعوی اوردیو مالائی داستان ہے ۔مابعد جدیدیت کے فلسفے کا اثر یہ ہے کہ آج کے انسان کی دلچسپی محض اپنے احساسات ،جذبات اور عملی مسائل کے ساتھ محدود ہو کر رہ گئی ہے ،آج کے انسان کے نزدیک زندگی کی تمام بحثیں مسئلہ اور حل کانام ہیں ،افکار ،نظریات اور آیئڈیالوجی کے مباحث محض نظری ہیں ۔جن کا عملی زندگی کی تشکیل اور مسائل کے حل میں کوئی کردار نہیں ہیں ۔آج کے انسان کے نزدیک اصول ،نظریات ،اقدار ،روایات و افکار ماضی کی باتیں ہیں ۔اس لئے بعض مفکرین نے مووجودہ دور کو “عدم نظریہ کا عہد”کہا ہے۔جبکہ مذہب( خواہ جو بھی ہو ) کی بنیاد ہی مخصوص نظریات ،خآص افکار ،متعین آدرشوں اور محدود خیالات و تصورات پر ہوتی ہے ۔اس لیے مسئلہ اور حل کے خوگر آج کے انسان کے نزدیک مذہب کے عقائد و نظریات “دیومالائی داستانیں “ہیں ۔مابعد جدیدیت کا فلسفہ بعض وجوہ سے تحریک تنویر ،تحریک رومانیت اور مغرب سے پھوٹنے والی پچھلی دو صدیوں کی دیگر فلسفیانہ تحریکوں کی بنیاد پر قائم “جدیدیت”سے زیادہ خطرناک ہے ۔ما بعد جدیدیت کاا ثر صرف مذہب پر نہیں پڑا ،ادب ،ثقافت ،صحافت ،سیاست حتی کے تعلیم تک پر اس کے اثرات پڑے ۔آج اگر ریٹنگ کے چکر میں ہمارے ٹی وی چینل اقدار ،روایات ،اخلاق بلکہ بسا اوقات ملکی قانون کو پامال کرتے ہیں ،ہمارے سیاستدان “چڑھتے سورج کے پجاری “بن گئے ہیں ،اور سال میں دو دو پارٹیاں بدلتے ہیں ،ہمارے صحافی و کالم نگار ایک سال میں بسا اوقات تمام اخباروں کا چکر کاٹ کر واپس پہلے اخبار تک پہنچ جاتے ہیں ،ہمارے ہاں تعلیم کی “خرید و فروخت”کا بازار گرم ہے ،اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ معاشرہ ایک دیانت دار صحافی ،کھرے سیاستدان ،نظریاتی کالم نگار اور ایک مخلص ٹیچر و پروفیسر کو اس حوالےسے “احمق” سمجھتا ہے کہ اس نے اصولوں ،نظریات اور ذہن میں موجود خیالات و تصورات کی بنا پر مال ،دولت اور عزت کو ٹھکرایا ۔آج بھی اچھے خآصے پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کا ذہن یہ ہے کہ معاشرے کا کامیاب فرد وہی ہے ،جس نے دو چار روپیہ کمایا ،ایکا اچھی سی کوٹھی کھڑی کی ،اونچے عہدوں تک پہنچ گیا ،اور زندگی میں لذت کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کیے ،تو وہ “کامیاب”شخص ہے ،خوواہ اس کے لیے اس نے نظریات ،اصولوں اور اپنے رسوم و روایات کو مکمل طور پر ہی ذبح کیؤں نہ کیا ہو ۔ یہ سب فلسفہ ما بعد جدیدیت کا تباہ کن اثرات ہیں ۔
استفادہ تحریر : سمیع اللہ سعدی
کاپی : https://ilhaad.com/

جمعرات، 30 اپریل، 2020

مغرب میں الحاد کی ابتداء کیسے ہوئی ؟

0 تبصرے

اسلام کی پوری تاریخ کے اندر، اسلام کو ان دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو یورپ کو انکے غلط عقیدے کی وجہ سے کرنا پڑیں۔ بہت اہم مشکلات میں سے ایک مذہب اور سائنس کے درمیان خوفناک اختلافات تھے۔ مذہب اس بےرحمی کیساتھ سائنس سے جا ٹکرایا کہ کلیسا نے بہت سے سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا اس بنا پر کہ وہ انکی کتاب کے خلاف چل رہے تھے۔
اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا… چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔
گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد (Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔
اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دوسری طرف اسلام کی تاریخ میں آپکو ایسا کچھ نہیں ملتا۔ اسلام نے ہمیشہ سائنسی تحقیقات کیلئے دروازے کھلے رکھے ہیں اور دنشوارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سائنسدان عموماً بہت سے خلفاء کے دربار اور اسمبلیوں میں خصوصی مہمان ہوتے اور انکی سرپرستی میں شاہی تحائف اور مراعات کا ایک منصفانہ حصہ وصول کرتے۔
مسلم دنیا کی اپنی طویل تاریخ میں کبھی بھی سائنسدانوں کو اس ظلم و ستم، پابندیوں اور جانچ-پڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسا کہ یورپ میں انکے ساتھ ہوا۔ چرچ نے مذہب کے نام پر لوگوں کیساتھ جو برا برتاؤ کیا، انکے مال کا ایک بڑا حصہ ان سے چھین لینا، انکی دانشورانہ زندگیوں کو محدود کردیا، مفکروں اور سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا، اسلام کو کبھی ان خرابیوں سے نہیں گزرنا پڑا۔ اسکے برعکس، مسلمان تاریخ میں سائنس اور مذہب کے درمیان دوستی دیکھنے کو ملتی ہے کہ پہلی وحی ہی “پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا” ہے۔ سائنس اسلام ہی کے دئے گئے ثمرات میں سے ایک ہے۔
آج کی سائنس الله کے حکم؛ پڑھنے، سیکھنے سکھانے اور غور و فکر، بجا لانے کا ہی نتیجہ ہے۔ وہ لوگ جو سیکولرزم کو مسلم دنیا میں لانے کے خواہاں ہیں، اسلامی دنیا کی مذہبی تاریخ اور یورپ کی مذہبی تاریخ کے اس بڑے فرق کو نظرانداز کرتے ہیں جہاں سے سیکولرزم نے جنم لیا۔
مستفاد: شیخ سلمان بن فہد العودہ کی ایک انگریزی تحریر سے اقتباس

حضرت شیخ الہند اور عصر حاضر کے چیلنجز ۔محمد عیسیٰ منصوری ‏، چیرمین، ورلڈ اسلامک فورم لندن

0 تبصرے
دار العلوم دیوبند جہاں شیخ الھند نے جہاں سے تعلیم حاصل کی

برصغیر میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بعد حضرت شیخ الہند محمودحسن دیوبندی کی خدمات سب سے نمایاں ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ملتِ اسلامیہ کو رام راج یا برہمن سامراج کا لقمہ تر بننے سے بچایا اور حضرت شیخ الہند نے برصغیر میں برٹش امپائر کے استحکام اور اسلام کے خلاف انگریز ہندو ملی بھگت کے بعد ملتِ اسلامیہ کی بقاء و رہنمائی کا پروگرام دیا برصغیر کی تاریخ میں آپ کا کردار سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، آپ نہ صرف مدرسہٴ دیوبند کے پہلے طالب علم تھے؛ بلکہ بانی مدرسہ دیوبند حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے حقیقی علمی، فکری وعملی جانشین بھی تھے۔ ۱۸۵۷/ کی شکست کے بعد برٹش امپائر اور برہمن سامراج نے ملی بھگت کرکے ملت اسلامیہ کو غلام اور شودربنانے کی منصوبہ بندی کرلی تھی، ملتِ اسلامیہ ہند کسی محاذ پر دشمن کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی اور حوصلہ ہارچکی تھی؛ کیونکہ ۱۸۵۷/ میں علماء، مشائخ اور دینی جزبہ رکھنے والے مسلمان ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں قتل وپھانسی پر چڑھ گئے یا کالا پانی وسلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیے گئے، ایسے نازک حالات میں ملتِ اسلامیہ کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کردینے والا یہ جاں فروش طبقہ (علمائے حق) ملت کے زخموں کو مندمل ہونے اور ایک نئی نسل کی تیاری کے لیے نئی حکمت عملی پر عمل شروع کردیا، وہ حکمتِ عملی یہ تھی کہ کچھ عرصہ کے لیے دشمن کے سامنے سے ہٹ کر اسے غافل کردیا جائے اور تعلیم و تربیت اور جہاد سے لیس ایک اور نسل تیار کی جائے، اس مشن کی خاطر دیوبند میں مدرسہ اور گنگوہ میں خانقاہ کے نام سے کام شروع ہوا، بقول حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی: ”میں نے (دشمن کو دھوکہ میں رکھنے کے لیے) اپنے مشن پر علم کی چادر ڈال دی ہے“ اور بقول حضرت شیخ الہند: ”حضرتُ الاستاذ نے یہ مدرسہ کیا محض درس وتدریس کے لیے قائم کیا تھا؟ بلکہ شاملی کی شکست کے بعد تلافی کے لیے یہ پُرحکمت اقدام تھا“۔
          آج بھی ہم حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی کی پالیسی وحکمت عملی کے دور میں ہیں، برصغیر میں دین کے تمام تر شعبوں کا سلسلہ حضرت شیخ الہند کی ذات پر منتہی ہوتا ہے، حضرت تھانوی ہوں یا علامہ انورشاہ کشمیری، حضرت مدنی ہوں یا مولانا محمد الیاس یا مولانا شبیر احمد عثمانی۔ بیسویں صدی کے تقریباً سب ہی اکابر حضرت شیخ الہند کے شاگرد اور تربیت یافتہ تھے، ان اکابر نے ملتِ اسلامیہ کے تحفظ وبقاء احیاء وسربلندی کے لیے الگ الگ محاذ سنبھالا، حضرت مدنی کا اصل محاذ یہ تھا کہ برصغیر اور عالم عرب سے انگریز کو نکالا جائے۔ حضرت تھانوی کا اصل کام تصوف کے متعلق، حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ کے ادھورے کام کی تکمیل تھی یعنی تصوف کو بدعات ومحدثات عجمی وبیرونی اثرات سے پاک وصاف کرکے قرآن وسنت کے عین مطابق بنادیا جائے۔ حضرت مولانا الیاس کا اصل کام ملت اسلامیہ کو کلمہ نماز اور دین کی مبادیات تک سے دور ہوگئی تھی ان کے ایمان کو تازہ اور قوی کرکے انھیں پورے دین پر مستقیم کردیا جائے، حضرت علامہ انورشاہ کشمیری نے ایسے دور میں عالمِ اسلام سے حدیث اور علومِ حدیث ختم ہورہے تھے، ملت اسلامیہ میں حدیث کے علوم کا احیاء کیا وغیرہ وغیرہ یہ سب ہی اکابر حضرت شیخ الہند کے شاگرد تھے۔
          بانیِ مدرسہ دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کو ملت اسلامیہ ہند کی بقاء وسربلندی کے لیے خاکہ تیار کرنے کے بعد زیادہ وقت نہیں ملا،آپ چالیس سال کی عمر ہی میں جوارِ رحمت میں پہنچ گئے، آپ کے مشن کی تکمیل حضرت شیخ الہند نے کی۔ آج دیوبندیت کے لیے اگر کوئی ہستی کامل آئیڈیل ونمونہ ہے تو وہ حضرت شیخ الہند کی ذات گرامی ہے، دیوبندیت نام ہے چار اوصاف کا: (۱) علم کامل (۲) عمل کامل (۳) تقویٰ کامل (۴) حمیت وغیرت کامل۔ آج ہم علمی عملی فکری ہراعتبار سے حضرت شیخ الہند کے دور میں ہیں۔ آج برصغیر کے تمام شعبوں میں کام کرنے والے علماء آپ کے شاگردوں کے تیار کردہ ہیں۔
          یاد رہے حضرت شیخ الہند کی جدوجہد صرف مسلمانان برصغیر کے لیے نہیں؛ بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے تھی، آپ خوب سمجھتے تھے کہ برصغیر سے انگریز کے قدم اکھڑتے ہی وہ عرب اور دیگر مسلم ممالک پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے گا؛ چنانچہ آپ نے اپنے راز دار وشاگرد رشید حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کو جس مشن پر روانہ کیا تھا وہ عالمی مشن تھا، جس میں جرمنی (یورپ) سے اسلحہ خلافت عثمانیہ سے عسکری مدد، افغانستان سے راہ داری وفوجی اور قبائلی علاقوں سے جاں باز سپاہی لے کر پورے برصغیر کو انگریزوں سے آزاد کروانا تھا، حکومت کو اپنے خفیہ اداروں سے تھوڑی سی بھنک مل گئی، اسی لمحہ ڈاکٹر انصاری صاحب نے خفیہ میسج بھیجا، آپ گرفتاری سے قبل فوراً حجاز نکل جائیں، حجاز میں آپ خلافتِ عثمانیہ کے ترکی گورنر (مدینہ) غالب پاشا اور ان کے واسطہ سے خلافتِ عثمانیہ کے وزیر جنگ انور جمال پاشا سے ملاقات کرکے اپنے مشن کو آگے بڑھارہے تھے، دوسری طرف برطانوی شعبہ انٹلیجنس نے لارنس آف عربیہ کے ذریعہ عربوں کو ترکوں سے آزادی کا جھانسہ دے کر حجاز میں ترکی کے مقرر کردہ حکمران شریف مکہ کو غداری پر آمادہ کرلیا۔ خلافت عثمانیہ کے ان غداروں نے حضرت شیخ الہند اورآپ کے رفقاء کو قید کرکے برطانیہ کے حوالے کردیا، اس طرح آپ تقریباً ساڑھے تین سال مالٹا میں قید رہے، آپ نے قید میں جو صعوبتیں اٹھائیں، بڑھاپے میں آپ کا جسم زارونزار ہوگیا اور متعدد موذی امراض لگ گئے؛ چنانچہ رہا ہوکر ہندوستان واپس ہوئے تو جسم کی ساری توانائی نچڑچکی تھی، بہ مشکل ساڑھے پانچ ماہ زندہ رہے وہ بھی مسلسل صاحبِ فراش اور وجع المفاصل، پیچش، بواسیر، تپ لرزہ جیسے متعدی موذی امراض کا شکار رہ کر؛ لیکن آپ اپنے مقاصد سے ذرا غافل نہیں ہوئے، آپ کی فکر وکارکردگی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنی فکر، حکمت عملی اور پالیسی کے اعتبار سے اس وقت عالم گیریت (گلوب لائزیشن) کے دور میں تھے جب یورپ محض نیشنلزم (وطنیت) کے دور میں تھا۔
          آپ ۸/جون ۱۹۲۰/ کو مالٹا سے رہا ہوکربحری جہازکے ذریعہ ممبئی پورٹ پہنچے، ممبئی میں دو روز نہایت مصروف گذارے، بندرگاہ سے مولانا شوکت علی اور تحریک خلافت کے ہزاروں پرجوش رضاکار شان دار جلوس کی شکل میں خلافت کمیٹی کے مرکزی دفتر واقع محمد علی روڈ لے گئے، ممبئی میں بھارت کی اہم سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں اور مشاہیر سے آپ نے ملاقاتیں کیں جن میں مہاتما گاندھی اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی جیسے رہنما شامل تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پورے برصغیر میں حضرت شیخ الہند کے مقام ومرتبہ کا کوئی رہنما نہیں تھا، نہ صرف طبقہ علماء نے؛ بلکہ کانگریس، کمیونسٹ وشوشلسٹ پارٹیوں سمیت سب ہی نے آپ کو اپنا عظیم رہنما تسلیم کیا۔ دیوبند جاکر بھی آپ تمام سیاسی لیڈروں سے رابطہ میں رہے؛ لیکن مدرسہٴ دیوبند کو حکومت کے غیض وغضب سے بچانے کے لیے آپ نے اپنے رابطے انتہائی خفیہ رکھے، آپ دیوبند میں مدرسہ سے دور ایک مکان میں سکونت پذیر ہوئے، جسے کوٹھی کہا جاتا تھا، کانگریس کمیونسٹ وشوشلسٹ اور دیگر پارٹیوں کے رہنما حضرت شیخ الہند سے ملاقات ومشورہ کے لیے عموماً گہری رات کے بعد خاموشی سے آتے اور کوٹھی میں ٹھہر جاتے آپ آدھی رات کے بعد ان سے چپکے سے ملاقات فرمالیتے، سرحد کے خدائی خدمت گار (خان عبدالغفار خان) کو حکم تھا کہ دیوبند نہ آئیں؛ بلکہ دیوبند سے پہلے یا بعد کے اسٹیشن پر اتریں، آپ وہیں پہنچ کر ملاقات کرلیں گے۔
          اسارتِ مالٹا کے دوران آپ ملتِ اسلامیہ کی سربلندی کے لیے مسلسل غور وخوض فرماتے رہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں واپسی پر آپ نے اپنی پالیسیوں (حکمت عملی) کو یکسر تبدیل فرمادیا، آپ کی نئی حکمت عملی وپالیسی کے دوبنیادی ستون تھے، ایک عسکریت کے بجائے ڈائیلاگ، آپ نے دیکھا کہ عالمِ کفر دن بدن طاقتور اور عالم اسلام کمزور وبے بس ہوتا جارہا ہے اوراپنوں (مسلمانوں) میں غداری وبے وفائی آگئی (ریشمی رومال کی تحریک اپنوں کی غداری ہی سے ناکام ہوئی) چنانچہ ایک قابل جرنیل کی طرح آپ نے جنگ کی حکمت عملی تبدیل کی آپ مسلسل دیکھ رہے تھے کہ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے مسلمان جہاد کا نعرہ لگاکر برطانیہ عظمیٰ سے ٹکراکر پاش پاش ہوتے رہے؛ کیونکہ انگریز برادرانِ وطن (ہندو) کو ساتھ ملاکر مسلمانوں کی جہادی تحریکوں کو کچل دیتا تھا، ہندوستان میں ہندو انگریز کا ہاتھ تھام کر ایک مضبوط اور طاقتور قوم بن رہا تھا اور مسلمان ٹکراٹکراکر ختم ہورہے تھے، اسی لیے آپ کی نئی حکمت عملی یہ تھی کہ ڈائیلاگ کے ذریعہ برادرانِ وطن کو آزادی کی جدوجہد میں ساتھ لیا جائے، آپ جانتے تھے کہ مسلمان تو پیچھے رہ کر بھی اپنے حصہ سے زیادہ قربانیاں دیں گے؛ مگر ہندو قوم مسلمان لیڈرشپ میں قربانی نہیں دے گی، آنے والی قیادت کے لیے ہندو (مہاتما گاندھی) کو آگے کیا؛ کیونکہ جب تک اکثریت ساتھ نہیں دیتی انگریز کو برصغیر چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، آپ نے دوسری حکمت عملی یہ اختیار فرمائی کہ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم نے مسلمانوں کے مقتدر طبقات اور شرفاء کو انگریز کی سوچ وفکر اور طرز زندگی کا وارث بنادیا تھا، آپ نے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی طرف دستِ شفقت بڑھاکر انھیں اپنا ترجمان بنالیا، اس طرح انھیں اپنی سوچ وفکر اورامنگوں کا وارث بنالیا؛ اس لیے آپ انتہائی ضعف وبیماری کے باوجود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لے گئے؛ تاکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنے درد وفکر میں شریک کرکے انھیں انگریز کے خلاف کھڑا کریں۔ آپ کے ضعف ونقاہت کا یہ عالم تھا کہ آپ دیوبند سے پالکی میں لیٹ کر روانہ ہوئے، نقاہت کی وجہ سے خطبہٴ صدارت نہیں پڑھ سکتے تھے جو مولانا شبیراحمد عثمانی نے پڑھا جس میں آپ نے فرمایا:
          ”میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت ونقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر؛ اس لیے لبیک کہا کہ اپنی ایک گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں۔“ پھر فرمایا: ’اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا۔“
          اسی خطبہٴ صدارت میں آپ نے فرمایا: ”آپ میں جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی بھی وقت کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا! ہاں بے شک یہ کہا کہ انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا کہ لوگ نصرانیت (مغربیت) کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب یا مذہب والوں کا مذاق اڑاتے یا حکومتِ وقت کی پرستش کرنے لگتے ہیں، ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا اچھا ہے۔“
          آپ کے بے قرار دل سے نکلی صدا نے جدید طبقہ کے دل کو مسخر کرلیا؛ چنانچہ جب آپ نے ترکِ موالات یعنی برطانوی حکومت سے ہر طرح کا تعاون ختم کرنے کی اپیل کی تو یونیورسٹی کے بہت سے طلباء نے یونیورسٹی سے رشتہ توڑ لیا۔ یہ واقعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۲۰/ کا ہے، اس طرح دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ مسلمانوں کی دوسری بڑی یونیورسٹی حضرت شیخ الہند کی بدولت وجود میں آئی۔ غرض حضرت شیخ الہند نے مالٹا سے واپسی پر برصغیر کی ملت اسلامیہ کو دو بنیادی پالیسیاں عطا کیں (۱) ڈائیلاگ (۲) جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو قریب کرکے انھیں اپنا ترجمان بنانا، اگر ہم ڈائیلاگ کی راہ پر ہوتے تو آج عالم گیریت کے دور میں اقوامِ عالم سے ڈائیلاگ کے ذریعہ قرآن کے مطابق انسانی مسائل کا حل پیش کررہے ہوتے، اسی طرح جدید تعلیم یافتہ طبقہ عالمی حالات کو جتنا سمجھتا ہے قدیم طبقہ نہیں اور جدید طبقہ کے پاس وہ زبان واسلوب ہے جسے اقوام عالم سمجھتی ہیں، صرف اس کے پاس قرآن وسنت کی صحیح رہنمائی نہیں ہے، اگر یہ دونوں چیزیں جمع ہوجائیں تو ملتِ اسلامیہ کی کشتی موجودہ حالات کے بھنور سے نکل سکتی ہے، کاش حضرت شیخ الہند کو زندگی نے کچھ اور مہلت دی ہوتی تو آپ کسی حد تک قدیم وجدید کی خلیج پاٹ دیتے، سب سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ طبقہٴ علماء نے حضرت شیخ الہند کے بعد آپ کی حکمتِ عملی فراموش کردی نہ ڈائیلاگ جاری رہا، نہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو قریب کرسکے؛ بلکہ دونوں طبقات میں دن بہ دن فاصلہ بڑھتا گیا۔
          حضرت شیخ الہند کے بعد آپ کے شاگردوں (جو بلاواسطہ یا بالواسطہ تقریباً تمام ہی علماء دیوبند ہیں) آپ کی جدید پالیسی کے دونوں نکات پر توجہ نہیں دی اگر طبقہٴ علماء ۱۹۲۰/ کے بعد حضرت شیخ الہند کی پالیسی کے دونوں نکات پر کاربند ہوکر جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنالیتے تو برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔
          بندہ گذشتہ دنوں حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کے ملفوظات پڑھ رہا تھا، حضرت بار بار نہایت رنج وغم سے فرماتے: ”مولوی ہارگیا“ اوریہ مولوی اس وقت تک ہارتا رہے گا جب تک حضرت شیخ الہند کی پالیسی پر نہیں آتا اور عصری تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوتا۔
حوالہ : ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الاول 1434 ہجری مطابق جنوری 2013ء

منگل، 3 مارچ، 2015

شہوت انسان کا فطری تقاضہ اور اس تقاضہ کی تکمیل کا فطری طریقہ نکاح ٘Marriage is the best to mankind for completing sexual requirements

0 تبصرے

شہوت  انسان کا فطری تقاضہ اور اس تقاضہ کی تکمیل کا فطری طریقہ نکاح
اللہ تعالی نے انسان کو مرد و عورت دو نوع میں تقسیم کیا۔ان دونوں کو ایک خاص ساخت میں پیدا کیا گیا ہے، اس خاص بناوٹ کی اہم ضرورت میں سے ایک ضرورت ‘‘شہوت فرج’’  بھی ہے۔ دیگر ضرورتوں کی طرح خالق کی طرف سے اس ضرورت کی بھی تکمیل کی بند و بست کی گئی۔ اللہ تعالی نے  انسان کی ہر نوعی ضرورت کی تکمیل کے لئے ایک نظام عطا کرکیاہے، یہاں بھی ایک خاص نظام ہے، جسے ‘‘ نکاح’’ کہا جاتاہے۔
نکاح کیا ہے: عقد يفيد ملك المتعة قصداً، أي حل استمتاع الرجل من امرأة،لم يمنع من نكاحها مانع شرعي ، بالقصد المباشر.([1]) یعنی ایک  ایسا معاملہ جس سے بارادۂ خود  عورت سے فائدہ اٹھانے کی ملکیت حاصل ہو، جب کہ اس معاملہ سے کوئی شرعی چیز مانع  نہ ہو۔ (تعریف نکاح پوری ہوئی)۔ اس تعریف کی رو سے معلوم ہوگیا : کہ‘‘عقد نکاح ’’ صرف  مرد و عورت  کے درمیان ہوگا۔ ہم جنس یا مخنث کے درمیان نہیں ۔  جیساکہ مغرب کی حیا باختہ تہذیب نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ اسی طرح اگر مرد و عورت کے درمیان محرم کا رشتہ ہو یا ان میں سے کوئی ایک مشرک ہو جب بھی نکاح شرعی منعقد نہیں ہوگا۔([2])
مقاصد و مصالح نکاح: اسلام کے  دوسرے احکام کی طرح اس حکم میں نہ جانے کتنے فوائد مضمر ہیں،  مگر اس حکم کی بنیادی فوائد درج ذیل ہیں:
(۱) عفت و عصمت کی حفاظت ہوتی ہے ۔ چنانچہ اس فائدہ کو شارع ؑ نے اس طرح بیان فرمایا:فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج.(۲)  باہمی تسکین و طمانینت قلب کا ذریعہ ہے نکاح ۔ اس فائدے کو باری تعالی نے  یوں فرمایا: :وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً9. الروم، الأية: 21  ([3]) (۳)  نکاح سے اولاد کی پیدا ئش ہوتی ہے ، اس  سے نوع انسان کی حفاظت ہوتی ہے۔(۴) نسل کی بقا و حفاظت  کے وسیلہ ہے نکاح۔  (۵) نکاح سے ایسا  خاندان کی اقامت ہوتی ہے  ، جس سے معاشرہ منظم ہوتاہے۔ اور نکاح معاشرہ کے افراد کے مابین  بھی تعاون کا ذریعہ ہے۔ (۶)  زوجین کا باہمی تعاون کا ذریعہ ہے نکاح۔ اسلئے کہ اس میں شوہر بیوی ایک دوسرا ذمہ داری کی بوجھ تحمل کرتے ہیں۔([4]) (۷) خاندانی رشتہ کی تقویت ہوتی ہے نکاح سے۔
نکاح انسان کا تقاضۂ شہوت کی تکمیل کا فطری طریقہ ہے: اسلام دین فطرت ہے، انسانی فطرت خلقی طور پر جس نظام کا تقاضا کرتی ہے، ٹھیک اسی طرح کا نظام ہے اسلام۔ اسلام کے  ہر ایک حکم میں غور کرنے سے  اس دعوی کی تقویت ملے گی۔ لیکن ہم چونکہ نکاح کو لیکر بحث کر رہے ہیں۔ اس لئے  ہم مذکورہ نقطۂ نظر سے نکاح  دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ ایک انسان کے اندر ایک قوت رکھی گئی جسے قوت شہوانیہ کہی جاتی ہے۔ اس تقاضہ کو پورا کرنے کے لئے شریعت نے انسان کو ایک خاص نظام عطا کیا ہے، جسے نکاح کہا جاہے۔ اور یہ طریقہ ایکدم انسان کی فطرت کے عین موافق ہے۔چونکہ قاعدہ ہے: تتبن الأشياء بضدّها، سو ہم شریعت اسلام کے اس طریقہ اور دوسرے طریقہ کے درمیان موازنہ کریں گے۔
نکاح اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد: اسلام سے پہلے متعدد مذاہب مرد و عورت کے تعلق کو نا مناسب تصور کرتے تھے۔ وہ اس تعلق کو قربت خداوندی اور تقوی کے منافی تصور کرتے تھے۔ اسلام سے پہلے عربوں  میں نکاح کے جو طریقے رائج تھے، وہ انسان کو حیوانات کی صف میں لا کھڑا کئے تھے ۔ انسانی  سماج کو اس مقام پر پہنچادئے  تھے کہ اس کی خاندانی شناخت بھی گم ہو جائے۔
چنانچہ عرب میں نکاح کی چار صورتیں تھیں ۔ (۱) نکاح استبضاع: یعنی شوہر اپنی بیوی کو اعلی خاندان کا بچہ حاصل کنے کی غرض سے کسی دوسرے مرد کے پاس بھیج دیتاتھا۔ اور جب تک  وہ عورت اس سے حاملہ نہ  ہوجاتی یہ شخص اس سے ہم آغوش نہیں ہوتا۔ ([5])
(۲) نکاح رہط: ایک عورت متعدد مرد جن کی تعداد دس کے اندر ہوتی تھی ہم آغوش ہوتے تھے۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو خاتون تمام مردوں کو طلب کرتی اور کسی طرف اس بچے کو منسوب کردیتی اور جس کی طرف منسوب کرتی اس کے لئے مجال انکار نہ ہوتا۔
(۳) وہی شکل جو آج کل پیشہ ور طوائف کا ہے۔ کہ جو بھی چاہتا، ان کے پاس آسکتاتھا۔ اور یہ بد قماش عورتیں اپنی شناخت کے لئے اپنے دروازوں پر جھنڈے نصب کئے رہتی تھی ۔ اگر یہ حاملہ ہوتیں اور بچہ پیدا ہوتا تو قیافہ شناس ان کے جس گاہگ کے بارے میں فیصلہ کرتا، اسی سے بچہ منسوب ہوتا۔
لیکن اسلام نے ایسا طریقہ بتایا جس سے بہتر طریقہ کوئی اور طریقہ کسی  سماج کے لئے نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اس نے زنا اور غیر قانونی تعلق کو حرام قرار دیا ، ایسی بھی صورت کو روا نہیں رکھا جس سے انسانی نسب تک مشتبہ ہوجائے۔ دوسری طرف  نکاح کی نہ صرف اجازت دی، بلکہ اس کی باضابطہ ترغیب بھی دی ہے۔  اسلئے کہ اگر انسان کی فطری ضرورتوں کے لئے جائز اور قانونی مواقع پیدا نہیں کئے گئے تو ان کو غیر قانونی راستے سے بچا نا دشوار ہوگا۔ ([6])
اب ہم خود نکاح اور اس کے متعلقات پر  غور کریں گے ، تاکہ ہمیں معلوم اس کی جنسی تسکین کا فطری  طریقہ کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔
نکاح اور متعلقات نکاح انسان کی فطری تقاضوں کے مطابق ہے:  اگر ہم نکاح کو چاروں  طرف سے دیکھیں تو  ہمیں یہ چیز نظر آئے گی کہ نکاح کی مشروعیت کی حکمت اس کے اراکین، اور ان کے مقاصد سب کے سب  انسان کی فطری تقاضوں کی تکمیل کے لئے ہیں۔ چنانچہ حکیم الہند حضرۃ الامام شاہ ولی اللہ الدہلوی ؒ  نے اپنی عظیم کتاب ۔جو کہ حجۃ اللہ البالغۃ ہے اسماً ومعنًا۔ میں  نکاح کی مشروعیت کی حکمت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ۔ إن حاجة النكاح أوجبت ارتباطاً واصطحاباً بين الرجل والمرأة.([7])جس سے پتہ چلتا ہے کہ نکاح کی حاجت انسان کی فطرت میں سے ہے۔کس طرح ہے؟اس کی تفصیل اسی کتاب کی دوسری جگہ میں اس طرح  لکھتے  ہیں: أن المني إذا كثر تولده في البدن، صعد بخاره إلى الدماغ، فحبّب إليه النظر إلى المرأة الجميلة، وشغف قلبَه حبُّها ، ونزل قسط منه إلى الفرج ، فحصل الشبق... ([8]) پھر لکھتے ہیں : وهذا حجاب عظيم من حجب الطبيعة ، يمنعه من الإمعان في الإحسان ، ويهيجه إلى الزنا ، ويفسد عليه الإخلاق ، ويوقعه في مهالك عظيمة من فساد ذات البين ، فوجب إماطة هذا الحجاب . ([9]) پھر اس حجاب کو دور کرنے کا طریقہ بتاتے  ہوئے فرمایا: فمن استطاع الجماع... فلا أحسن له من التزوج.([10])
نکاح کے علاوہ مرد و زن دوسرا  جسمانی تعلق کو ‘‘زنا’’ کہا جاتاہے ۔ اگر ہم نکاح  کے مقاصد کی طرف نظر دیں گے تو یہ بات واضح ہوجائے گی  کہ انسان کی اس فطری ضرورت کی تکمیل  کے لئے نکاح ہی کو منتخب کیا گیا۔  اور ‘‘زنا ’’کو حرام کیاگیا۔
نکاح ہی کو جائز قرار دیکر زنا کو حرام کرنے کی حکمت:  یہ ہے کہ انسانیت کے لئے مفید ترین طریقہ نکاح کے علاوہ کوئی طریقہ ہی نہیں، اور زنا کے پیچھے ہزاروں قسم نقصانات ہیں۔ ان حقیقتوں کو حضرۃ الامام الدہلوی ؒ کی زبانی سنئے: حضرۃ الامام ؒ لکھتے ہیں : کچھ ایسے عادات اور طرز زندگی ہیں جو شہری نظام کو برباد کردیتی ہے۔ اور وہ تیں طرح کی ہوتے ہیں: ان میں ایک ہے شہوانی  اعمال، جس کا سر چشمہ ہے ‘‘شہوت’’۔ اور  ان شہوانی اعمال  میں سے ‘‘زنا’’ قسم اول کے قبیل  سے ہے۔یعنی ‘‘زنا’’ ایسا عمل  ہے جو عام شہری نظام کو برباد کردیتا ہے۔ حضرۃ الامام ؒ نے اس کو ایک حسی مثال سے سمجھایا، وہ لکھتے ہیں: کہ مرد انسان شہوت، غیرت اور لالچ میں جانور مردکی  مشابہت رکھتا ہے، پھر  مرد انسان جانور مرد کی طرح مادہ یا عورت کی طرف مائل ہوتاہے، اور  اپنے موطوہ پردوسرا کسی کا تزاحم کا برداشت نہیں کرتاہے۔ لیکن فرق یہ  ہے، جانور مردوں  مادہ کے سلسلے  میں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، جو کامیاب ہوتاہےوہ مادہ  اسی کی ہوتی  ہے۔چونکہ انسان ہوشیار ہے کہ اسکی گمان بھی دیکھنا اور سننا جیسا ہے۔ سو ان کو الہام کیا گیا، کہ انسان کا آپسی لڑائی اپنے شہروں کو برباد کردے گی، اس لئے تمدن کے آپسی تعاون کا ہونا ضروری ہے۔ اور تمدن کی ترقی میں عورتوں سے  مردوں کی ہاتھ زیادہ ، مرد کو عورت کےلئے  نہیں، بلکہ عورت کو مرد کے لئے اختصاص  کی جانی چایئے کہ   کسی کی  خاص عورت میں دوسرا انسان مزاحمت نہ کرے۔  ورنہ لڑائی جھگڑا  سے مرد ختم ہوجائیں گے، اور نظام تمدن درہم برہم ہوجائیگا۔ اور زنا میں اس فطری نظام کو تھوڑنا ہوتاہے، جس کی وجہ سے سماج میں بربادی آتی ہے۔
اسی طرح ہم جنس پرستی کی بھی  اجازت نہیں دی گئی۔اس کی حکمت و راز کے بار ے میں حضرۃ الامام الدہلوی ؒ  لکھتے ہیں: انسان کی فطرت سلیمہ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عورت میں رغبت کرے، نہ کہ مرد میں، جیساکہ جانوروں بھی یہی بات پائی جاتی ہے۔لیکن بعض آدمی غلبۂ شہوت کی وجہ سے  اس جانور کی طرح بن جاتا ہے،  جو اپنی فطرت سے  ہٹے ہوئے ہوتاہے کہ مرد ہی سے شہوت پورا کرلیتا ہے۔ یہ عمل ایسا ہے جیسا کہ فطرت کے مخالف ایک آدمی مٹی کھاکر ضرورت پورا کتاہے۔ ([11])
خلاصہ یہ ہوا: کہ نکاح اور نکاح کے متعلق چیزوں میں جس کو بھی دیکھیں ، اس کے پیچھے آپ کو ایک عجیب غریب حکمت معلوم ہوگی، جس سے پتہ چلتا ہے، کہ نکاح کا یہ نظام انسانی فطرت کے عین موافق ہے۔ پس ہم ببانگ بلند کہ سکتے ہیں کہ : ‘‘نکاح’’ انسان کا فطری تقاضہ شہوت کی تکمیل کا فطری طریقہ ہے ۔




([1]). الفقه الإسلامي وأدلته، ج7، ص29
([2]).قاموس الفقہ، ج۵، ص ۲۲۱
([3]). أیضاً، ج۵، ص ۲۲۲۔۲۲۳
([4]). الفقه الإسلامي وأدلته، ج7، ص31
([5]). قاموس الفقہ، ج۵، ص ۲۲۱
([6]). یعنی انسان کی نکاح کی حاجت مرد و عورت کے درمیان  ربط و تعلق کا تقاضہ کرتی ہے۔ أیضاً، ج۵، ص۲۲۲
([7]). حجة الله البالغة، ج1، ص88
([8])یعنی انسان کے جسم میں جب منی کی کثرت ہوتی ہے، تو اس کا بخار انسانی دماغ کو پہنچتاہے، جس کی وجہ خوب صورت عورت کی طرف نظر کا پسند یدہ ہونے لگتاہے۔ اور بخار کا کچھ حصہ شرم گاہ میں جاتاہے، تو شہوت و عورت کی چاہت پیدا ہوتی ہے۔
([9]). اور یہ طبعی حجاب ہے، جو انسان کو احسان میں یکسوئی سے روکتاہے، زنا پر ابھارتا رہتاہے، اور اس کے اخلاق کو برباد کردیتاہے، سو اس حجاب کو دور کرنا ہوگا۔
([10]).حجة الله البالغة، ج2، ص385
([11])حجة الله البالغة، ج1، ص151

انسان کا پابند شریعت ہونا انکی فطری تقاضوں کی تکمیل ہے Be bound by the law (Religion) is Complement their nature’s requirements

0 تبصرے
بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان کا پابند شریعت  ہونا انکی فطری تقاضوں کی تکمیل ہے
از قلم: محمد سجاد بن یونس
دنیا میں کسی چیز کا بنانے والا اس چیز کو بنا  کے اسے ویسےہی نہیں چھوڑ دیتے ، بلکہ اس کے ساتھ استعمال کے طور طریقہ پر مشتمل ایک مینوئل دیتے ہیں، انسانوں کو بنانے والے بھی انکو بنا کے ویساہی نہیں چھوڑ دیا،  بلکہ انسان کی اپنی زندگی میں ترقی، مرنے کے بعد خوش حالی حاصل  کرنے کے لئے انسان کو  ایک ‘‘نظام اور گائڈ لائن’’  عطا کیا۔
یہ بات مسلم ہے کہ کسی  چیز کے مینوئل کے بارے میں یہ سوال  کرنا کہ اس کی ضرورت کیا ہے؟ ، بے کار ہے ۔ اسلئے کہ یہ سوال تو مینوئل کے  نہ ہونے کے وقت کیا جانا صحیح۔  اسی طرح انسانوں کو بھی صحیح طرح چلنے کے لئے جو نظام دیا اس پر  تو یہ  سوال نہ ہونا چاہئے  تھا کہ انسان کو مکلف یا پابند نظام کیوں بنا یا گیا؟ مگر کیا کریں اس شکی مزاج انسان کا ، خصوصاً اس دور میں کہ اور تو اور خود نوجوان مسلمانوں  کی اکثریت ماحول اور حالات وغیرہ کی وجہ سے اس طرح سوال کربیٹھتے ہیں، یا ذہن میں یہ سوال آتا ہے ، اور عملاً اس کا مظاہرہ کرتا ہے۔
ایسے دماغوں کو صحیح کرنے کے لئے  بارہویں صدی کی  مشہور  شخصیت ، حضرت حکیم الاسلام ، الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنے دور اور آنے والے  دوروں کا مزاج سمجھتے ہوئے اس کے مطابق اس سوال کا جواب دیا، اور خوب اچھا دیا۔ اس مقالہ میں ہم ‘‘حجۃ اللہ البالغہ’’  کے دو بابوں- جن میں اس موضوع پر انہوں نے گفتگو کی ہے-  کی روشنی میں   صرف یہ نہیں کہ‘‘  انسان کو مکلف کیوں بنایا گیا’’   اسکو واضح کرنے کی کوشش کریں گےبل کہ یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی  کریں گے کہ  انسا ن کا پابند احکام ہونا انکی فطری تقاضوں کی تکمیل ہے۔
سب سے پہلے ہم جانیں گے کہ ’’تکلیف‘‘کیا ہے؟
تکلیف سے مراد: علامہ سید شریف جرجانیؒ فرماتے ہیں: التكليف: إلزام الكلفة على المخاطب.([1])تاریخ دعوت و عزیمت کے  حاشیہ میں  ‘‘تکلیف ’’  کو واضح انداز میں اس طر ح بیان کیا گیا:  خدا کا اپنے بندوں کو مخاطب کرنا ، اور اوامر واحکام پر عمل کرنے ، اور مناہی سے بچنے کا پابند بنانا،  جسکو  قرآن میں ‘‘الأمانة’’سے تعبیر کی گئی۔([2])
انسان کو مکلف بنا ئے جانے کا راز:کسی کو  کو ئی چیز اس وقت دی جاتی ہے جب وہ اس چیز کو قبول کر نے کی صلاحیت رکھتاہو۔ اسی طرح انسان کو مکلف بنائے جانے کے  پیچھے راز یہ ہے: کہ انسان میں اس (تکلیف)کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انسان کے علاوہ اور کسی میں اسکی صلاحیت نہیں ہے۔چنانچہ اس کے  دیگر ابنائے جنس میں ایک فرشتے  ہیں اور دوسرا  حیوانات ہیں۔ان میں سے کسی میں بھی اسکی صلاحیت نہیں کہ اس کو مکلف بنا یا جائے۔ اسلئے کہ تکلیف کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایسا شخص ہو جو ظلوم اور جہول ہو ، ظلوم اسے کہتے ہیں : جو عدل و انصاف کرسکتاہو  اس میں  اس کی قابلیت  اور اہلیت ہو لیکن عدل و انصاف کرے نہیں، اور جہول اسے کہتے ہیں جسے علم نہیں مگر وہ علم حاصل کرسکتاہے۔ ([3])
اور یہ صفت صرف انسان ہی میں ہے فرشتہ اور دیگر حیوانات  میں نہیں  ہے۔فرشتہ میں تو اس لئے نہیں ہے کہ فرشتہ وہ شخص ہے جو طبعی طور پر  ہی علم و عدل رکھتاہے ،  یعنی وہ عالم و عادل ہے  ،  وہ  غیر عالم و غیر عادل ہو ہی نہیں سکتا ۔اور دیگر حیوانات میں اسلئے نہیں ، کہ حیوانات  میں طبعی طور پر جہل و ظلم ہے یعنی وہ جاہل و ظالم ہے،  وہ عالم و عادل بن ہی نہیں سکتے۔ یہ ذرا تفصیل طلب موضوع ہے  جس کو حضرۃ الامام الدہلوی  ؒ نے کافی شافی  تفصیل و وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔  ہم یہاں اسکا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
ملائکہ اور صلاحیت تکلیف :اسلئے کہ  ‘‘ملائکہ’’ میں جسمانیت کا پہلو نہیں ہے۔ سو حیوانی قوت کی زیادتی  کی وجہ سے  پیش آمدہ حالات مثلاً:۔ غضب، فخر، شہوت  وغیرہ اور اسکی کمی  کی وجہ سے پیش آمدہ حالات مثلاً: بھوک، پیاس ، خوف اور غم وغیرہ۔ سے وہ پاک و صاف ہیں۔ ان کی طبعی حالات یہ ہیںکہ وہ  اوپر سے جو علوم  ان پر نازل کئے جاتے ہیں اس کو عمل میں لانے کے لئے ہمہ وقت فارغ رہتے ہیں۔ ([4])
حیوانات اور تکلیف:دوسری طرف ’’حیوانات ‘‘میں صرف جسمانیت کا پہلو ہے۔ ہر وقت وہ اپنی طبعی خواہش میں پھنسے رہتے ہیں۔ وہ فقط وہ کام کرتے ہیں جن میں انکے بدن کا کوئی فائدہ ہوتاہو، یا ان کی حیوانی تقاضے پوری کرنے والی کوئی چیز ہوتی ہو  وہ اس کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔([5])
انسان اور تکلیف:انسان میں مذکورہ دونوں پہلو ایک ہی ساتھ پائے جاتے ہیں۔ ان کے اندر فرشتوں کی سی طاقت بھی ہے،  او ر  یہ طاقت  اس‘‘ روح’’ کے اثر سے پیدا ہوتی ہے  جو انسان میں پائی جاتی ہے، دیگر  حیوانات  میں نہیں پائی جاتی، اور  وہ انسان کے سارے جسم میں پھیلی ہوتی ہے۔ اور انسان کی روح طبعی اس روح الہی کے تابع ہو کر کام کرتی ہے۔ساتھ ساتھ اس کے اندر حیوانوں سی طاقت بھی ہے ، جو اس کے ’’حیوانی روح ‘‘میں سے نکلتی ہے۔  یہ حیوانی روح عام حیوانوں میں ایک جیسی ہوتی ہے۔پہلی قوت کو ‘‘قوت ملکیہ’’  اور دوسری قوت کو ‘‘قوت بہیمیہ’’  کہا جاتا ہے۔([6])
خلاصہ یہ ہوا:۔  کہ انسان کو تکلیف کی ذمہ داری دئے جانے کے پیچھے راز  اسکی ‘‘ صلاحیت’’ ہے۔ گویا کہ اس کے اندر رکھی گئی صلاحیت بزبان حال کہہ رہی ہے کہ مجھ پر‘‘قوت ملکیہ’’ کے لحاظ  کرتے ہوئے اس کے مناسب احکام لازم کئے جائیں۔ اور اسی پر انعام دیا جائے۔ اور‘‘قوت بہیمیہ’’کی رعایت کرتے ہوئے اس میں انہماک کو حرام قرار دیا جائے۔ اس میں انہماک کی صورت مین اس کو سزادی جائے۔([7])
صرف صلاحیت ہی  کی وجہ سے  انسان کو پابند احکام نہیں بنایا گیا، بلکہ انسان کی جو خاص ساخت  کی جو ضروریات ہیں،  اسکا تقاضا یہ ہے کہ انسان  کو ایک  قانون  دیا جائے ،  اور ایک خاص نظام کے پابند بنائے جائے جس کے مطابق چل کر وہ اپنی فطری تقاضوں کی تکمیل کر سکتاہے۔ پس اگر انسان کو اس خاص نظام کے پابند نہ بناتے ، جب ہی اعتراض ہوتا، اس کو خاص قانون دیکر  اسکا پابند نبانا تو اس پر رحمت ہے۔اس کو ذرا تفصیل سے سمجھئے۔
تکلیف انسان کے نوعی تقاضے کی تکمیل ہے:
 اس سے پہلے کہ  ہم یہ ثابت کریں کہ انسان   کو مکلف بنانا انکی فطری ضرورت کی تکمیل ہے، انسان کی فطرت وجبلت اور ان کی ضرورت پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔
انسان کی فطرت:۔ جس طرح نباتات کی مخصوص شکل ، ذائقہ ، بو وغیرہ ہوتی ہے۔  اور ان کو انہیں چیزوں کی وجہ سے پہچانا جانا ہے۔ یہ چیزیں  حیوانات میں بھی پائی جاتی  ہیں ۔ کہ اس کی صورت نوعیہ  (مخصوص ساخت )ہی کی وجہ سے ان میں مختلف شکل کے حیوانات ہوتے ہیں۔  بلکہ ان میں کچھ ایسی خصوصیات بھی ہوتی ہیں، جو نباتات میں نہیں ہوتیں۔ مثلاً:۔ ارادہ سے حرکت کرنا ، ہرایک کو اپنے اعتبار سے جبلی الہام ہونا،  انہیں چیزوں کی وجہ سے ایک حیوان دوسرے سے ممتاز رہتاہے۔  یعنی مختلف حیوانات میں مختلف قسم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
حیوانات  اور نباتات کی طرح انسانمیںبھی مختلف شکل و صورت ہوتی ہے، انسان میں بعض وہ چیزیں بھی ہیں جو حیوانات میں ہوتی ہیں ، نباتات  نہیں ۔  اور کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں  جو صرف انسان میں پائی جاتی ہیں  نہ کہ ان دونوں میں۔ مثلاً:۔ قوت گویائی ، خطاب کو سمجھنے کی صلاحیت ، بدیہی مقدمات کی ترتیب سے، تجربہ ،  ہوشیاری  سے مجہول علوم کا کھوج لگانا، اور ان  میں ان امور کو اہتمام کے ساتھ کرنے کی صفت ہے جن کا حسن عقلی ہو ، نہ کہ حسی اور وہمی۔
آئیں اب ہم دیکھتے ہیں مذکورہ مخلوقات : نباتات، حیوانات، اور انسان میں سے ہر ایک کی خلقت و فظرت کی  کیا ضروریات  ہیں ، ان کے پیدا کرنے والے رب نے ان  ضروریات کی تکمیل کے لئے کیا بند و بست و تدبیر  کی ہے۔
اس باب میں حضرۃ الامام ؒ کے منہج پر میرا تأثر : میں حیرت سے انگشت بدندان رہ گیا   کہ  شا ہ صاحب  نے نباتات اور حیوانات  اور انسان کی خلقت پھر انکی فطری ضرورت اور ان کے طرز زندگی کے بارے میں ایسے عجیب و غریب معلومات فراہم کئے کہ ایک ماہر حیوانیات ، ماہر نباتات  اور ماہر طب بھی اس طرح کی  معلومات فراہم نہیں کرسکتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے  -والله أعلم- کہ  جب  حضرۃ الامام ؒ  یہ سب لکھ رہے تھے  تو ان  حقیقتوں کو بچشم خود دیکھ دیکھ کر ہی لکھ رہے تھے۔
نباتات ، حیوانات  اور  انسان کی فطری  ضروریات: سب سے پہلے ذہن میں یہ بات رکھنی چاہئے کہ ان انواع کی ضروریات  کو  ان کی فطرت اور خلقت کے موافق تدبیر کے ذریعہ   تکمیل کی جاتی ہے۔
سب سے پہلے ’’ نباتات ‘‘ کی غذائی ضرورت کو لیجئے،  چونکہ  ‘‘نبا تات ’’ میں حس کی صفت ہے، نہ حرکت کی ، سو اس کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس  کی فطرت کے موافق ہی تدبیر اختیار کی گئی، کہ نباتات کی جڑ پیدا کی گئی جو کہ پانی، ہوا، اور مٹی کے مجموعی مادہ کو چوس کر اپنی غذائی ضرورت کو پورا کرتے۔
پھر ‘‘حیوانات ’’ کو دیکھئے: چونکہ خلقی طور پر ان میں حس کی صفت ہے ، وہ  ارادہ سے حرکت  بھی کرسکتے  ہیں ، ان کو جبلی الہام بھی  ہوتا ہے۔ سو انکی غذائی ضرورت کو پورا کرتے وقت ان  کی اس خلقت کی رعایت کی گئی ہے، کہ دانہ ، پانی کو اپنی جگہوں سے تلاشنے  کا الہام کیا جائے ، سو وہ اپنے ارادہ سے حرکت کرکے دانہ ، پانی کی جگہوں  میں جاتے  ہیں ، اور اپنی غذائی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔
اخیراً انسان کو لیجئے: انسان میں چونکہ حس کی صفت ہے، وہ ارادہ سے حرکت بھی  کرسکتاہے،  اس کے پاس فطری الہام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی محنت سے مجہول علوم کو حاصل کرنے کی صفت بھی ہوتی ہے۔، اسکی غذائی ضرورت کو پور ا کرنے میں اس کی اس فطرت کو پیش نظر رکھی گئی، کہ اس  کو کھیتی باڑی، درخت کو بونے ، اور لین دین  کے طریقے الہام کئے جاتیں  ہیں، ان میں کوئی حاکم ہو، تو کوئی محکوم،  ان میں کوئی مالک ہو ، تو کوئی غلام ہو۔، ان میں کوئی تو الہیات  ، فنون طبعیہ، ریاضیہ جیسے علوم میں ماہر ہوتا ہے، تو کوئی ایسا غبی الذہن ہوتاہے جو کسی کی تقلید کئے بغیر نہیں چل سکتا۔  یہ تھی نباتات ، حیوانات اور  انسان کی ایک فطری ضرورت: غذائی ضرورت کا بیان۔ حضرۃ الامام الدہلوی  ؒ نے نباتات اور حیوانات کی  دوسری فطری ضرورت:  مثلاً تربیت اولاد کی ضرورت کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کی ہے۔ ([8])
یہاں تک تو ان فطرت، اور فطری ضرورتوں  کے بارے میں گفتگو  ہوئی  جو قوت بہیمیہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اب ہم ان فطرت، پھر فطری ضرورت ، پھر اس ضرورت کی تکمیل کے بارے گفتگو کرنا چاہتے ہیں جو قوت ملکیہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اور جیساکہ شروع  میں  یہ بات آچکی ہے کہ قوت ملکیہ صرف انسان  کی خصوصیت ہے ، نبا تات ، اور حیوانات میں نہیں پائی جاتی ، سو یہاں سے  بات صرف ’’انسان ‘‘کو مرکز بناکے کی جائےگی۔
قوت ملکیہ کے حوالہ سے انسان کی فطرت: اس قوت ملکیہ کے حوالہ سے انسان کے پاس ایک ایسی صفت ہے، جس سے نباتات اور حیوانات عاری ہیں۔  اور  وہ یہ کہ اس کو اعلی قسم کی سمجھ کی صفت  حاصل ہے۔ پھر اس نے بعض علم پیدا کئے جن میں سب انسانی فرد برابر کے شریک ہیں سوائے ان بد قسمتوں کے جن میں یہ مادہ ہی نہیں کہ یہ نوعی خواص قبول کریں۔([9]) ان علوم میں بعض درج ذیل ہیں:
۱۔ اپنی پیدائش اور تربیت کا سبب تلاش کرنا،
۲۔پھر رفتہ رفتہ سوچتے سوچتے  یہ پتہ لگا لینا کہ اس کائنات کو تدبیر سے چلانے والی کوئی ہستی ضرور ہے، جس نے مجھے بھی وجود بخشا ، اور اب مجھے رزق دے کر پرورش کررہاہے۔
۳۔  یہ اپنی جنس کے دوسرے حیوان کی  طرح ہمیشہ’’ زبان حال‘‘ سے اس پیدا کرنے والے اور پرورش کرنے والے کے سامنے اپنے آپ کو جھکانے کے ساتھ ساتھ ایک دانشمند اور تیز سمجھ دار  ہونے کے ناتے  وہ  اس پیدا کرنے والے اور پرورش کرنے والے کے سامنے پوری محبت  کے ساتھ، جان بوجھ کر ، پورے علم کے ساتھ  عاجزی کا اظہار کرنا ہے۔([10])
مزید برآں انسان میں مندرجۂ ذیل خصوصیات بھی ہیں:
بعض انسان کو’’حظیرۃ القدس ‘‘میں انسان کو علم دینے والا منبع تک رسائی ہونا۔ اس کے علاوہ بھی ایسے صفات  جو حیوانات میں نہیں پائی جاتی یہ ہیں:صاف ستھرا رہنا، معاشرہ میں عدل و انصاف قائم رکھنا، لذتوں میں اس طرح پھنس نہ جانا کہ اپنے فرض کو بھول جائے۔، اس پر اللہ تعالی کے کرشموں اور فرشتوں کی طاقتوں کا ظاہر ہونا، مثلا:۔ اس کی دعا قبول ہونا، تمام کرامتیں اور روحانی ترقی کے مقامات اور حالتیں جو اس پر طاری ہوتی ہیں۔ ([11])
الغرض جن چیزوں میں انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہے اگر  ان چیزوں اور خصوصیات کا خلاصہ کرنا چاہیں تو  ان سب کو دو حصوں میں  تقسیم کرسکتے ہیں۔ (۱) قوت عقلی جس کی  دو شاخیں ہیں، (۲) قوت عملی ،  اور اس کے بھی دو شاخیں ہیں۔  پہلے حصہ کی دو شاخیں یہ ہیں: (أ) عقل کا وہ استعمال جو اپنی سو سائٹی کے نظام کو درست کے لئے ارتفاقات پر غور کرتا ہے۔ (ب) عقل کا وہ حصہ جو بغیر کوشش کے غیبی علوم کو حاصل کرسکتاہے۔دوسرےحصہ کی دو شاخیں یہ ہیں: (أ)اپنے ارادے، قصد و اختیار سے کام کرنا کہ وہ انسان کے نفس کا جز بن جائے، (ب) اعلی درجے کے حالات ، روحانی مقامات حاصل ہونا۔ مثلاً: اللہ تعالی کی محبت، اور اس پر بھروسہ وغیرہ اعلی درجے کے حالات اور روحانی مقامات میں سے ہیں۔([12])
انسان کی  فطری ضرورت جو قوت ملکیہ سے تعلق رکھتاہے:انسان کی قوت ملکیہ کی بھی کچھ ضرورت ہیں، چنانچہ قوت ملکیہ کے  جو دو  قسمیں ہیں ان میں سے ہر ایک قسم اپنی دونوں شاخوں سمیت  کے لئے  الگ الگ ضرورتیں ہیں۔ مثلاً:  قوت عقلیہ کی پہلی  شاخ کی ضرورت یہ ہے کہ ایسے علوم کا ہونا جو صرف ان میں کا پاکیزہ تر آدمی حاصل کرسکتاہے، اور باقی انسان  کا ان علوم میں ان کی اتباع کرنا۔قوت عقلیہ کی  دوسری  شاخ کی ضرورت یہ ہے: انسان کے کئے ایسا ایک قانون ہو جس میں اللہ کی پہچان کا طریقہ ہو، اور زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی۔اسی طرح قوت عملیہ کی  پہلی  شاخ کی ضرورت یہ ہے انسان جو کام ارادہ و اختیار سے کرتاہے  اس کے کچھ قاعدے ہوں ، جن کے مطابق ان کاموں کو پانچ قسموں میں  منقسم کیا جاتاہے، مثلاً: واجب ، مستحب، مباح، مکروہ، حرام۔ قوت عملیہ کی دوسری شاخ کی ضرورت یہ ہے : اللہ تعالی کی نزدیکی  حاصل کرنے کے مقاموں پر پہنچنے کے لئے ابتدائی باتیں صاف طور پر بتائی گئی  ہوں۔([13])
جب ان چیزوں کو مہیا کیا جائے گا، انسان کی صورت نوعیہ (اصل ساخت )کے مطابق معتدل رہے گا۔ خلاصہ یہ ہے: کہ  انسان  کو ایسے علوم کی ضرورت ہے  جو قوت عقلیہ کی خلا کو بھر سکے ۔  وہ علوم یہ ہیں:
۱۔ اس کا علم کہ خدا تعالی ایک ہی ہے، اس کی یکتائی کس طرح ہے، اس کی صفتیں کیسی ہیں، اور کیا کیا ہیں، یہ علم اتنا صاف اور وا ضح ہونا چاہئے کہ انسانی عقل خود بخود اسے سمجھ لے ۔
۲۔ عبادت کا علم یعنی اس بات کا علم کہ اللہ تعالی کی بندگی کس طرح کریں۔
۳۔ علم ارتفاقات یعنی دنیا میں زندگی گزارنے کے طریقوں کا علم۔
۴۔ علم مناظرہ یعنی بحث کا علم۔
۵۔ انسان کی بصیرت بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کی  نعمتیں یاد دلائی جائیں اور قوموں کے اتار چڑھاؤ کے تاریخی واقعات یاد دلائے جائیں اور مرنے کے بعد قبر اور حشر میں جو واقعات ہوں گے وہ بتائے جائیں۔ ([14])
کیفیت تکمیل ضروریات:  ان علوم -جن سے انسان کی قوت عقلیہ کی ضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے-  کو اللہ تعالی ایک خاص انداز میں انسان تک پہچایاہے۔ مختلف درجے سے گزر کر یہ علوم انسان کی ضرورت کو  پورا کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ازل میں نوع انسان پر اور اس کی استعدادوں (قابلیتوں) پر نظر ڈالی جو تمام انسانوں کی نسلوں میں چلنے والی تھیں اور اس کی ملکی قوت پر بھی نظر ڈالی اور یہ دیکھا کہ مذکورہ پانچ قسموں کے علموں کی مدد سے تدبیر الٰہی کس طرح انسان کی زندگی کی درستی کرے گی۔ چنانچہ یہ سب علم  اللہ تعالی کے غیب الغیب میں محدود شکل میں آگئے۔پھر ان علوم کا عکس ان  اونچے درجے کے فرشتوں کے نفسوں مین رکھ دئے گئے جن کی نسبت انسان سے اس طرح ہے جس طرح انسان کی قوت  عقلیہ کی نسبت  قوت ادراکیہ سے ہے۔ پھر ان فرشتوں نے  ان علوم کو ایک قسم کی روحانی شکل پہنادی۔ پھر ہر دور میں جب بڑی حکومتیں اور ملتیں بدلتی ہیں تو ان علموں کو اس زمانے کی ضرورتوں کے مطابق نیا روحانی وجود دیا جاتاہے۔ چنانچہ وہ علوم اس زمانے کے آسمانی حالات کے مطابق واضح او ر صاف شکل میں آجاتے ہیں ۔پھر جب انسانی معاشرہ میں ایسا ایک آدمی پیدا ہوتا ہے  جو نہایت پاک ہو اور جو اس خزانے سے علم لینے کی استعداد رکھتاہو،  تو اس بندے کو اللہ تعالی اپنے لئے  خاص کرکے اسے اپنے ارادے کے پورا کرنے کا آلہ بنالیتاہے۔ اور اس پر نوع انسانی کے لئے مجموعۂ قوانین اتارتاہے، اور اس کی پیروی اپنے بندوں پر ضروری قراردے دیتاہے۔ اور اسی کو ’’شریعت‘‘ کہا جاتا ہے۔جس کا انسان کو پابند بنایا گیا۔
اس پوری گفتگو کے بعد ذرا سوچئے یہ ’’شریعت‘‘ جو ان علوم کے مجموعہ ہے، جس سے انسان کی عقل کی خلا اور ضرورت پوری ہوتی ہے۔ سو ان علوم کا غیب الغیب میں ایک خاص شکل میں مقرر ہونا، پھر طبقۂ فرشتہ کو پیدا کرکے ان علوم مذکورہ کا عکس ان کے اندر ڈالنا، پھر خاص حالات میں ان علوم کو خاص بندہ کے ذریعہ انسان تک پہنچانا: بندوں کے سا تھ اللہ تعالی کی  محبت کا معاملہ کرنے، ان کے استعداد کی طلب کو سننے، اور نوع انسانی کے تقاضے کی تکمیل کرنے کے لئے ہے۔اس پوری بات کو ایک ڈائگرام کی شکل میں سمجھئے:




([1]). التعريفات، 65، علي بن محمد الشريف الجرجاني،  دار الكتب العلمية بيروت –لبنان، الطبعة: الأولى 1403هـ -1983م
([2]).علی میاں ندوی، تاریخ دعوت و عزیمت، ج۵، ص۲۲۲، دار الاشاعۃ کراچی۔مطبوع: ۱۴۳۱ھ ۔۲۰۱۰ء
([3]).حجة الله البالغة، ج1، ص91
([4]).حجة الله البالغة، ج1، ص91
([5]). أیضاً، ج۱، ص۹۱-۹۲
([6]).أیضاً، ج۱، ص۹۲
([7]).أیضاً، ج۱، ص۹۳
([8]).  حجة الله ، ج1، ص96
([9]). أیضاً، ج۱، ص۹۷
([10]). حجۃ اللہ البالغۃ ، ج۱، ص۹۷-۹۸
([11]). أیضاً، ج۱، ۹۸۔۹۹
([12]). أیضاً، ج۱،۹۹۔۱۰۰
([13]).أیضاً، ج۱،۱۰۰۔۱۰۱
([14]).حجۃ اللہ البالغۃ ، ج۱، ص۱۰۱۔۱۰۲