منگل، 3 مارچ، 2015

انسان کا پابند شریعت ہونا انکی فطری تقاضوں کی تکمیل ہے Be bound by the law (Religion) is Complement their nature’s requirements

0 تبصرے
بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان کا پابند شریعت  ہونا انکی فطری تقاضوں کی تکمیل ہے
از قلم: محمد سجاد بن یونس
دنیا میں کسی چیز کا بنانے والا اس چیز کو بنا  کے اسے ویسےہی نہیں چھوڑ دیتے ، بلکہ اس کے ساتھ استعمال کے طور طریقہ پر مشتمل ایک مینوئل دیتے ہیں، انسانوں کو بنانے والے بھی انکو بنا کے ویساہی نہیں چھوڑ دیا،  بلکہ انسان کی اپنی زندگی میں ترقی، مرنے کے بعد خوش حالی حاصل  کرنے کے لئے انسان کو  ایک ‘‘نظام اور گائڈ لائن’’  عطا کیا۔
یہ بات مسلم ہے کہ کسی  چیز کے مینوئل کے بارے میں یہ سوال  کرنا کہ اس کی ضرورت کیا ہے؟ ، بے کار ہے ۔ اسلئے کہ یہ سوال تو مینوئل کے  نہ ہونے کے وقت کیا جانا صحیح۔  اسی طرح انسانوں کو بھی صحیح طرح چلنے کے لئے جو نظام دیا اس پر  تو یہ  سوال نہ ہونا چاہئے  تھا کہ انسان کو مکلف یا پابند نظام کیوں بنا یا گیا؟ مگر کیا کریں اس شکی مزاج انسان کا ، خصوصاً اس دور میں کہ اور تو اور خود نوجوان مسلمانوں  کی اکثریت ماحول اور حالات وغیرہ کی وجہ سے اس طرح سوال کربیٹھتے ہیں، یا ذہن میں یہ سوال آتا ہے ، اور عملاً اس کا مظاہرہ کرتا ہے۔
ایسے دماغوں کو صحیح کرنے کے لئے  بارہویں صدی کی  مشہور  شخصیت ، حضرت حکیم الاسلام ، الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنے دور اور آنے والے  دوروں کا مزاج سمجھتے ہوئے اس کے مطابق اس سوال کا جواب دیا، اور خوب اچھا دیا۔ اس مقالہ میں ہم ‘‘حجۃ اللہ البالغہ’’  کے دو بابوں- جن میں اس موضوع پر انہوں نے گفتگو کی ہے-  کی روشنی میں   صرف یہ نہیں کہ‘‘  انسان کو مکلف کیوں بنایا گیا’’   اسکو واضح کرنے کی کوشش کریں گےبل کہ یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی  کریں گے کہ  انسا ن کا پابند احکام ہونا انکی فطری تقاضوں کی تکمیل ہے۔
سب سے پہلے ہم جانیں گے کہ ’’تکلیف‘‘کیا ہے؟
تکلیف سے مراد: علامہ سید شریف جرجانیؒ فرماتے ہیں: التكليف: إلزام الكلفة على المخاطب.([1])تاریخ دعوت و عزیمت کے  حاشیہ میں  ‘‘تکلیف ’’  کو واضح انداز میں اس طر ح بیان کیا گیا:  خدا کا اپنے بندوں کو مخاطب کرنا ، اور اوامر واحکام پر عمل کرنے ، اور مناہی سے بچنے کا پابند بنانا،  جسکو  قرآن میں ‘‘الأمانة’’سے تعبیر کی گئی۔([2])
انسان کو مکلف بنا ئے جانے کا راز:کسی کو  کو ئی چیز اس وقت دی جاتی ہے جب وہ اس چیز کو قبول کر نے کی صلاحیت رکھتاہو۔ اسی طرح انسان کو مکلف بنائے جانے کے  پیچھے راز یہ ہے: کہ انسان میں اس (تکلیف)کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انسان کے علاوہ اور کسی میں اسکی صلاحیت نہیں ہے۔چنانچہ اس کے  دیگر ابنائے جنس میں ایک فرشتے  ہیں اور دوسرا  حیوانات ہیں۔ان میں سے کسی میں بھی اسکی صلاحیت نہیں کہ اس کو مکلف بنا یا جائے۔ اسلئے کہ تکلیف کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایسا شخص ہو جو ظلوم اور جہول ہو ، ظلوم اسے کہتے ہیں : جو عدل و انصاف کرسکتاہو  اس میں  اس کی قابلیت  اور اہلیت ہو لیکن عدل و انصاف کرے نہیں، اور جہول اسے کہتے ہیں جسے علم نہیں مگر وہ علم حاصل کرسکتاہے۔ ([3])
اور یہ صفت صرف انسان ہی میں ہے فرشتہ اور دیگر حیوانات  میں نہیں  ہے۔فرشتہ میں تو اس لئے نہیں ہے کہ فرشتہ وہ شخص ہے جو طبعی طور پر  ہی علم و عدل رکھتاہے ،  یعنی وہ عالم و عادل ہے  ،  وہ  غیر عالم و غیر عادل ہو ہی نہیں سکتا ۔اور دیگر حیوانات میں اسلئے نہیں ، کہ حیوانات  میں طبعی طور پر جہل و ظلم ہے یعنی وہ جاہل و ظالم ہے،  وہ عالم و عادل بن ہی نہیں سکتے۔ یہ ذرا تفصیل طلب موضوع ہے  جس کو حضرۃ الامام الدہلوی  ؒ نے کافی شافی  تفصیل و وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔  ہم یہاں اسکا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
ملائکہ اور صلاحیت تکلیف :اسلئے کہ  ‘‘ملائکہ’’ میں جسمانیت کا پہلو نہیں ہے۔ سو حیوانی قوت کی زیادتی  کی وجہ سے  پیش آمدہ حالات مثلاً:۔ غضب، فخر، شہوت  وغیرہ اور اسکی کمی  کی وجہ سے پیش آمدہ حالات مثلاً: بھوک، پیاس ، خوف اور غم وغیرہ۔ سے وہ پاک و صاف ہیں۔ ان کی طبعی حالات یہ ہیںکہ وہ  اوپر سے جو علوم  ان پر نازل کئے جاتے ہیں اس کو عمل میں لانے کے لئے ہمہ وقت فارغ رہتے ہیں۔ ([4])
حیوانات اور تکلیف:دوسری طرف ’’حیوانات ‘‘میں صرف جسمانیت کا پہلو ہے۔ ہر وقت وہ اپنی طبعی خواہش میں پھنسے رہتے ہیں۔ وہ فقط وہ کام کرتے ہیں جن میں انکے بدن کا کوئی فائدہ ہوتاہو، یا ان کی حیوانی تقاضے پوری کرنے والی کوئی چیز ہوتی ہو  وہ اس کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔([5])
انسان اور تکلیف:انسان میں مذکورہ دونوں پہلو ایک ہی ساتھ پائے جاتے ہیں۔ ان کے اندر فرشتوں کی سی طاقت بھی ہے،  او ر  یہ طاقت  اس‘‘ روح’’ کے اثر سے پیدا ہوتی ہے  جو انسان میں پائی جاتی ہے، دیگر  حیوانات  میں نہیں پائی جاتی، اور  وہ انسان کے سارے جسم میں پھیلی ہوتی ہے۔ اور انسان کی روح طبعی اس روح الہی کے تابع ہو کر کام کرتی ہے۔ساتھ ساتھ اس کے اندر حیوانوں سی طاقت بھی ہے ، جو اس کے ’’حیوانی روح ‘‘میں سے نکلتی ہے۔  یہ حیوانی روح عام حیوانوں میں ایک جیسی ہوتی ہے۔پہلی قوت کو ‘‘قوت ملکیہ’’  اور دوسری قوت کو ‘‘قوت بہیمیہ’’  کہا جاتا ہے۔([6])
خلاصہ یہ ہوا:۔  کہ انسان کو تکلیف کی ذمہ داری دئے جانے کے پیچھے راز  اسکی ‘‘ صلاحیت’’ ہے۔ گویا کہ اس کے اندر رکھی گئی صلاحیت بزبان حال کہہ رہی ہے کہ مجھ پر‘‘قوت ملکیہ’’ کے لحاظ  کرتے ہوئے اس کے مناسب احکام لازم کئے جائیں۔ اور اسی پر انعام دیا جائے۔ اور‘‘قوت بہیمیہ’’کی رعایت کرتے ہوئے اس میں انہماک کو حرام قرار دیا جائے۔ اس میں انہماک کی صورت مین اس کو سزادی جائے۔([7])
صرف صلاحیت ہی  کی وجہ سے  انسان کو پابند احکام نہیں بنایا گیا، بلکہ انسان کی جو خاص ساخت  کی جو ضروریات ہیں،  اسکا تقاضا یہ ہے کہ انسان  کو ایک  قانون  دیا جائے ،  اور ایک خاص نظام کے پابند بنائے جائے جس کے مطابق چل کر وہ اپنی فطری تقاضوں کی تکمیل کر سکتاہے۔ پس اگر انسان کو اس خاص نظام کے پابند نہ بناتے ، جب ہی اعتراض ہوتا، اس کو خاص قانون دیکر  اسکا پابند نبانا تو اس پر رحمت ہے۔اس کو ذرا تفصیل سے سمجھئے۔
تکلیف انسان کے نوعی تقاضے کی تکمیل ہے:
 اس سے پہلے کہ  ہم یہ ثابت کریں کہ انسان   کو مکلف بنانا انکی فطری ضرورت کی تکمیل ہے، انسان کی فطرت وجبلت اور ان کی ضرورت پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔
انسان کی فطرت:۔ جس طرح نباتات کی مخصوص شکل ، ذائقہ ، بو وغیرہ ہوتی ہے۔  اور ان کو انہیں چیزوں کی وجہ سے پہچانا جانا ہے۔ یہ چیزیں  حیوانات میں بھی پائی جاتی  ہیں ۔ کہ اس کی صورت نوعیہ  (مخصوص ساخت )ہی کی وجہ سے ان میں مختلف شکل کے حیوانات ہوتے ہیں۔  بلکہ ان میں کچھ ایسی خصوصیات بھی ہوتی ہیں، جو نباتات میں نہیں ہوتیں۔ مثلاً:۔ ارادہ سے حرکت کرنا ، ہرایک کو اپنے اعتبار سے جبلی الہام ہونا،  انہیں چیزوں کی وجہ سے ایک حیوان دوسرے سے ممتاز رہتاہے۔  یعنی مختلف حیوانات میں مختلف قسم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
حیوانات  اور نباتات کی طرح انسانمیںبھی مختلف شکل و صورت ہوتی ہے، انسان میں بعض وہ چیزیں بھی ہیں جو حیوانات میں ہوتی ہیں ، نباتات  نہیں ۔  اور کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں  جو صرف انسان میں پائی جاتی ہیں  نہ کہ ان دونوں میں۔ مثلاً:۔ قوت گویائی ، خطاب کو سمجھنے کی صلاحیت ، بدیہی مقدمات کی ترتیب سے، تجربہ ،  ہوشیاری  سے مجہول علوم کا کھوج لگانا، اور ان  میں ان امور کو اہتمام کے ساتھ کرنے کی صفت ہے جن کا حسن عقلی ہو ، نہ کہ حسی اور وہمی۔
آئیں اب ہم دیکھتے ہیں مذکورہ مخلوقات : نباتات، حیوانات، اور انسان میں سے ہر ایک کی خلقت و فظرت کی  کیا ضروریات  ہیں ، ان کے پیدا کرنے والے رب نے ان  ضروریات کی تکمیل کے لئے کیا بند و بست و تدبیر  کی ہے۔
اس باب میں حضرۃ الامام ؒ کے منہج پر میرا تأثر : میں حیرت سے انگشت بدندان رہ گیا   کہ  شا ہ صاحب  نے نباتات اور حیوانات  اور انسان کی خلقت پھر انکی فطری ضرورت اور ان کے طرز زندگی کے بارے میں ایسے عجیب و غریب معلومات فراہم کئے کہ ایک ماہر حیوانیات ، ماہر نباتات  اور ماہر طب بھی اس طرح کی  معلومات فراہم نہیں کرسکتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے  -والله أعلم- کہ  جب  حضرۃ الامام ؒ  یہ سب لکھ رہے تھے  تو ان  حقیقتوں کو بچشم خود دیکھ دیکھ کر ہی لکھ رہے تھے۔
نباتات ، حیوانات  اور  انسان کی فطری  ضروریات: سب سے پہلے ذہن میں یہ بات رکھنی چاہئے کہ ان انواع کی ضروریات  کو  ان کی فطرت اور خلقت کے موافق تدبیر کے ذریعہ   تکمیل کی جاتی ہے۔
سب سے پہلے ’’ نباتات ‘‘ کی غذائی ضرورت کو لیجئے،  چونکہ  ‘‘نبا تات ’’ میں حس کی صفت ہے، نہ حرکت کی ، سو اس کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس  کی فطرت کے موافق ہی تدبیر اختیار کی گئی، کہ نباتات کی جڑ پیدا کی گئی جو کہ پانی، ہوا، اور مٹی کے مجموعی مادہ کو چوس کر اپنی غذائی ضرورت کو پورا کرتے۔
پھر ‘‘حیوانات ’’ کو دیکھئے: چونکہ خلقی طور پر ان میں حس کی صفت ہے ، وہ  ارادہ سے حرکت  بھی کرسکتے  ہیں ، ان کو جبلی الہام بھی  ہوتا ہے۔ سو انکی غذائی ضرورت کو پورا کرتے وقت ان  کی اس خلقت کی رعایت کی گئی ہے، کہ دانہ ، پانی کو اپنی جگہوں سے تلاشنے  کا الہام کیا جائے ، سو وہ اپنے ارادہ سے حرکت کرکے دانہ ، پانی کی جگہوں  میں جاتے  ہیں ، اور اپنی غذائی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔
اخیراً انسان کو لیجئے: انسان میں چونکہ حس کی صفت ہے، وہ ارادہ سے حرکت بھی  کرسکتاہے،  اس کے پاس فطری الہام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی محنت سے مجہول علوم کو حاصل کرنے کی صفت بھی ہوتی ہے۔، اسکی غذائی ضرورت کو پور ا کرنے میں اس کی اس فطرت کو پیش نظر رکھی گئی، کہ اس  کو کھیتی باڑی، درخت کو بونے ، اور لین دین  کے طریقے الہام کئے جاتیں  ہیں، ان میں کوئی حاکم ہو، تو کوئی محکوم،  ان میں کوئی مالک ہو ، تو کوئی غلام ہو۔، ان میں کوئی تو الہیات  ، فنون طبعیہ، ریاضیہ جیسے علوم میں ماہر ہوتا ہے، تو کوئی ایسا غبی الذہن ہوتاہے جو کسی کی تقلید کئے بغیر نہیں چل سکتا۔  یہ تھی نباتات ، حیوانات اور  انسان کی ایک فطری ضرورت: غذائی ضرورت کا بیان۔ حضرۃ الامام الدہلوی  ؒ نے نباتات اور حیوانات کی  دوسری فطری ضرورت:  مثلاً تربیت اولاد کی ضرورت کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کی ہے۔ ([8])
یہاں تک تو ان فطرت، اور فطری ضرورتوں  کے بارے میں گفتگو  ہوئی  جو قوت بہیمیہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اب ہم ان فطرت، پھر فطری ضرورت ، پھر اس ضرورت کی تکمیل کے بارے گفتگو کرنا چاہتے ہیں جو قوت ملکیہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اور جیساکہ شروع  میں  یہ بات آچکی ہے کہ قوت ملکیہ صرف انسان  کی خصوصیت ہے ، نبا تات ، اور حیوانات میں نہیں پائی جاتی ، سو یہاں سے  بات صرف ’’انسان ‘‘کو مرکز بناکے کی جائےگی۔
قوت ملکیہ کے حوالہ سے انسان کی فطرت: اس قوت ملکیہ کے حوالہ سے انسان کے پاس ایک ایسی صفت ہے، جس سے نباتات اور حیوانات عاری ہیں۔  اور  وہ یہ کہ اس کو اعلی قسم کی سمجھ کی صفت  حاصل ہے۔ پھر اس نے بعض علم پیدا کئے جن میں سب انسانی فرد برابر کے شریک ہیں سوائے ان بد قسمتوں کے جن میں یہ مادہ ہی نہیں کہ یہ نوعی خواص قبول کریں۔([9]) ان علوم میں بعض درج ذیل ہیں:
۱۔ اپنی پیدائش اور تربیت کا سبب تلاش کرنا،
۲۔پھر رفتہ رفتہ سوچتے سوچتے  یہ پتہ لگا لینا کہ اس کائنات کو تدبیر سے چلانے والی کوئی ہستی ضرور ہے، جس نے مجھے بھی وجود بخشا ، اور اب مجھے رزق دے کر پرورش کررہاہے۔
۳۔  یہ اپنی جنس کے دوسرے حیوان کی  طرح ہمیشہ’’ زبان حال‘‘ سے اس پیدا کرنے والے اور پرورش کرنے والے کے سامنے اپنے آپ کو جھکانے کے ساتھ ساتھ ایک دانشمند اور تیز سمجھ دار  ہونے کے ناتے  وہ  اس پیدا کرنے والے اور پرورش کرنے والے کے سامنے پوری محبت  کے ساتھ، جان بوجھ کر ، پورے علم کے ساتھ  عاجزی کا اظہار کرنا ہے۔([10])
مزید برآں انسان میں مندرجۂ ذیل خصوصیات بھی ہیں:
بعض انسان کو’’حظیرۃ القدس ‘‘میں انسان کو علم دینے والا منبع تک رسائی ہونا۔ اس کے علاوہ بھی ایسے صفات  جو حیوانات میں نہیں پائی جاتی یہ ہیں:صاف ستھرا رہنا، معاشرہ میں عدل و انصاف قائم رکھنا، لذتوں میں اس طرح پھنس نہ جانا کہ اپنے فرض کو بھول جائے۔، اس پر اللہ تعالی کے کرشموں اور فرشتوں کی طاقتوں کا ظاہر ہونا، مثلا:۔ اس کی دعا قبول ہونا، تمام کرامتیں اور روحانی ترقی کے مقامات اور حالتیں جو اس پر طاری ہوتی ہیں۔ ([11])
الغرض جن چیزوں میں انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہے اگر  ان چیزوں اور خصوصیات کا خلاصہ کرنا چاہیں تو  ان سب کو دو حصوں میں  تقسیم کرسکتے ہیں۔ (۱) قوت عقلی جس کی  دو شاخیں ہیں، (۲) قوت عملی ،  اور اس کے بھی دو شاخیں ہیں۔  پہلے حصہ کی دو شاخیں یہ ہیں: (أ) عقل کا وہ استعمال جو اپنی سو سائٹی کے نظام کو درست کے لئے ارتفاقات پر غور کرتا ہے۔ (ب) عقل کا وہ حصہ جو بغیر کوشش کے غیبی علوم کو حاصل کرسکتاہے۔دوسرےحصہ کی دو شاخیں یہ ہیں: (أ)اپنے ارادے، قصد و اختیار سے کام کرنا کہ وہ انسان کے نفس کا جز بن جائے، (ب) اعلی درجے کے حالات ، روحانی مقامات حاصل ہونا۔ مثلاً: اللہ تعالی کی محبت، اور اس پر بھروسہ وغیرہ اعلی درجے کے حالات اور روحانی مقامات میں سے ہیں۔([12])
انسان کی  فطری ضرورت جو قوت ملکیہ سے تعلق رکھتاہے:انسان کی قوت ملکیہ کی بھی کچھ ضرورت ہیں، چنانچہ قوت ملکیہ کے  جو دو  قسمیں ہیں ان میں سے ہر ایک قسم اپنی دونوں شاخوں سمیت  کے لئے  الگ الگ ضرورتیں ہیں۔ مثلاً:  قوت عقلیہ کی پہلی  شاخ کی ضرورت یہ ہے کہ ایسے علوم کا ہونا جو صرف ان میں کا پاکیزہ تر آدمی حاصل کرسکتاہے، اور باقی انسان  کا ان علوم میں ان کی اتباع کرنا۔قوت عقلیہ کی  دوسری  شاخ کی ضرورت یہ ہے: انسان کے کئے ایسا ایک قانون ہو جس میں اللہ کی پہچان کا طریقہ ہو، اور زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی۔اسی طرح قوت عملیہ کی  پہلی  شاخ کی ضرورت یہ ہے انسان جو کام ارادہ و اختیار سے کرتاہے  اس کے کچھ قاعدے ہوں ، جن کے مطابق ان کاموں کو پانچ قسموں میں  منقسم کیا جاتاہے، مثلاً: واجب ، مستحب، مباح، مکروہ، حرام۔ قوت عملیہ کی دوسری شاخ کی ضرورت یہ ہے : اللہ تعالی کی نزدیکی  حاصل کرنے کے مقاموں پر پہنچنے کے لئے ابتدائی باتیں صاف طور پر بتائی گئی  ہوں۔([13])
جب ان چیزوں کو مہیا کیا جائے گا، انسان کی صورت نوعیہ (اصل ساخت )کے مطابق معتدل رہے گا۔ خلاصہ یہ ہے: کہ  انسان  کو ایسے علوم کی ضرورت ہے  جو قوت عقلیہ کی خلا کو بھر سکے ۔  وہ علوم یہ ہیں:
۱۔ اس کا علم کہ خدا تعالی ایک ہی ہے، اس کی یکتائی کس طرح ہے، اس کی صفتیں کیسی ہیں، اور کیا کیا ہیں، یہ علم اتنا صاف اور وا ضح ہونا چاہئے کہ انسانی عقل خود بخود اسے سمجھ لے ۔
۲۔ عبادت کا علم یعنی اس بات کا علم کہ اللہ تعالی کی بندگی کس طرح کریں۔
۳۔ علم ارتفاقات یعنی دنیا میں زندگی گزارنے کے طریقوں کا علم۔
۴۔ علم مناظرہ یعنی بحث کا علم۔
۵۔ انسان کی بصیرت بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کی  نعمتیں یاد دلائی جائیں اور قوموں کے اتار چڑھاؤ کے تاریخی واقعات یاد دلائے جائیں اور مرنے کے بعد قبر اور حشر میں جو واقعات ہوں گے وہ بتائے جائیں۔ ([14])
کیفیت تکمیل ضروریات:  ان علوم -جن سے انسان کی قوت عقلیہ کی ضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے-  کو اللہ تعالی ایک خاص انداز میں انسان تک پہچایاہے۔ مختلف درجے سے گزر کر یہ علوم انسان کی ضرورت کو  پورا کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ازل میں نوع انسان پر اور اس کی استعدادوں (قابلیتوں) پر نظر ڈالی جو تمام انسانوں کی نسلوں میں چلنے والی تھیں اور اس کی ملکی قوت پر بھی نظر ڈالی اور یہ دیکھا کہ مذکورہ پانچ قسموں کے علموں کی مدد سے تدبیر الٰہی کس طرح انسان کی زندگی کی درستی کرے گی۔ چنانچہ یہ سب علم  اللہ تعالی کے غیب الغیب میں محدود شکل میں آگئے۔پھر ان علوم کا عکس ان  اونچے درجے کے فرشتوں کے نفسوں مین رکھ دئے گئے جن کی نسبت انسان سے اس طرح ہے جس طرح انسان کی قوت  عقلیہ کی نسبت  قوت ادراکیہ سے ہے۔ پھر ان فرشتوں نے  ان علوم کو ایک قسم کی روحانی شکل پہنادی۔ پھر ہر دور میں جب بڑی حکومتیں اور ملتیں بدلتی ہیں تو ان علموں کو اس زمانے کی ضرورتوں کے مطابق نیا روحانی وجود دیا جاتاہے۔ چنانچہ وہ علوم اس زمانے کے آسمانی حالات کے مطابق واضح او ر صاف شکل میں آجاتے ہیں ۔پھر جب انسانی معاشرہ میں ایسا ایک آدمی پیدا ہوتا ہے  جو نہایت پاک ہو اور جو اس خزانے سے علم لینے کی استعداد رکھتاہو،  تو اس بندے کو اللہ تعالی اپنے لئے  خاص کرکے اسے اپنے ارادے کے پورا کرنے کا آلہ بنالیتاہے۔ اور اس پر نوع انسانی کے لئے مجموعۂ قوانین اتارتاہے، اور اس کی پیروی اپنے بندوں پر ضروری قراردے دیتاہے۔ اور اسی کو ’’شریعت‘‘ کہا جاتا ہے۔جس کا انسان کو پابند بنایا گیا۔
اس پوری گفتگو کے بعد ذرا سوچئے یہ ’’شریعت‘‘ جو ان علوم کے مجموعہ ہے، جس سے انسان کی عقل کی خلا اور ضرورت پوری ہوتی ہے۔ سو ان علوم کا غیب الغیب میں ایک خاص شکل میں مقرر ہونا، پھر طبقۂ فرشتہ کو پیدا کرکے ان علوم مذکورہ کا عکس ان کے اندر ڈالنا، پھر خاص حالات میں ان علوم کو خاص بندہ کے ذریعہ انسان تک پہنچانا: بندوں کے سا تھ اللہ تعالی کی  محبت کا معاملہ کرنے، ان کے استعداد کی طلب کو سننے، اور نوع انسانی کے تقاضے کی تکمیل کرنے کے لئے ہے۔اس پوری بات کو ایک ڈائگرام کی شکل میں سمجھئے:




([1]). التعريفات، 65، علي بن محمد الشريف الجرجاني،  دار الكتب العلمية بيروت –لبنان، الطبعة: الأولى 1403هـ -1983م
([2]).علی میاں ندوی، تاریخ دعوت و عزیمت، ج۵، ص۲۲۲، دار الاشاعۃ کراچی۔مطبوع: ۱۴۳۱ھ ۔۲۰۱۰ء
([3]).حجة الله البالغة، ج1، ص91
([4]).حجة الله البالغة، ج1، ص91
([5]). أیضاً، ج۱، ص۹۱-۹۲
([6]).أیضاً، ج۱، ص۹۲
([7]).أیضاً، ج۱، ص۹۳
([8]).  حجة الله ، ج1، ص96
([9]). أیضاً، ج۱، ص۹۷
([10]). حجۃ اللہ البالغۃ ، ج۱، ص۹۷-۹۸
([11]). أیضاً، ج۱، ۹۸۔۹۹
([12]). أیضاً، ج۱،۹۹۔۱۰۰
([13]).أیضاً، ج۱،۱۰۰۔۱۰۱
([14]).حجۃ اللہ البالغۃ ، ج۱، ص۱۰۱۔۱۰۲

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔