شہوت انسان کا فطری
تقاضہ اور اس تقاضہ کی تکمیل کا فطری طریقہ نکاح
اللہ تعالی نے انسان کو مرد و عورت دو نوع میں تقسیم کیا۔ان
دونوں کو ایک خاص ساخت میں پیدا کیا گیا ہے، اس خاص بناوٹ کی اہم ضرورت میں سے ایک
ضرورت ‘‘شہوت فرج’’ بھی ہے۔ دیگر ضرورتوں
کی طرح خالق کی طرف سے اس ضرورت کی بھی تکمیل کی بند و بست کی گئی۔ اللہ تعالی نے انسان کی ہر نوعی ضرورت کی تکمیل کے لئے ایک
نظام عطا کرکیاہے، یہاں بھی ایک خاص نظام ہے، جسے ‘‘ نکاح’’ کہا جاتاہے۔
نکاح کیا ہے: عقد يفيد ملك المتعة قصداً، أي حل استمتاع الرجل من امرأة،لم يمنع من
نكاحها مانع شرعي ، بالقصد المباشر.([1])
یعنی ایک ایسا
معاملہ جس سے بارادۂ خود عورت سے فائدہ
اٹھانے کی ملکیت حاصل ہو، جب کہ اس معاملہ سے کوئی شرعی چیز مانع نہ ہو۔ (تعریف نکاح پوری ہوئی)۔ اس تعریف کی رو
سے معلوم ہوگیا : کہ‘‘عقد نکاح ’’ صرف مرد
و عورت کے درمیان ہوگا۔ ہم جنس یا مخنث کے
درمیان نہیں ۔ جیساکہ مغرب کی حیا باختہ
تہذیب نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ اسی طرح اگر مرد و عورت کے درمیان محرم کا رشتہ
ہو یا ان میں سے کوئی ایک مشرک ہو جب بھی نکاح شرعی منعقد نہیں ہوگا۔([2])
مقاصد و مصالح نکاح: اسلام کے دوسرے احکام کی طرح اس حکم
میں نہ جانے کتنے فوائد مضمر ہیں، مگر اس
حکم کی بنیادی فوائد درج ذیل ہیں:
(۱) عفت و عصمت کی حفاظت ہوتی ہے ۔ چنانچہ اس فائدہ کو شارع
ؑ نے اس طرح بیان فرمایا:فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج.(۲) باہمی تسکین و
طمانینت قلب کا ذریعہ ہے نکاح ۔ اس فائدے کو باری تعالی نے یوں فرمایا: :وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا
لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً9. الروم، الأية: 21 ([3]) (۳) نکاح سے اولاد
کی پیدا ئش ہوتی ہے ، اس سے نوع انسان کی
حفاظت ہوتی ہے۔(۴) نسل کی بقا و حفاظت کے
وسیلہ ہے نکاح۔ (۵) نکاح سے ایسا خاندان کی اقامت ہوتی ہے ، جس سے معاشرہ منظم ہوتاہے۔ اور نکاح معاشرہ کے
افراد کے مابین بھی تعاون کا ذریعہ ہے۔ (۶)
زوجین کا باہمی تعاون کا ذریعہ ہے نکاح۔ اسلئے
کہ اس میں شوہر بیوی ایک دوسرا ذمہ داری کی بوجھ تحمل کرتے ہیں۔([4]) (۷) خاندانی رشتہ کی تقویت ہوتی
ہے نکاح سے۔
نکاح انسان کا تقاضۂ شہوت کی تکمیل کا فطری طریقہ ہے: اسلام دین فطرت ہے، انسانی فطرت خلقی طور پر جس نظام کا
تقاضا کرتی ہے، ٹھیک اسی طرح کا نظام ہے اسلام۔ اسلام کے ہر ایک حکم میں غور کرنے سے اس دعوی کی تقویت ملے گی۔ لیکن ہم چونکہ نکاح کو
لیکر بحث کر رہے ہیں۔ اس لئے ہم مذکورہ
نقطۂ نظر سے نکاح دیکھنے کی کوشش کریں
گے۔ ایک انسان کے اندر ایک قوت رکھی گئی جسے قوت شہوانیہ کہی جاتی ہے۔ اس تقاضہ کو
پورا کرنے کے لئے شریعت نے انسان کو ایک خاص نظام عطا کیا ہے، جسے نکاح کہا جاہے۔
اور یہ طریقہ ایکدم انسان کی فطرت کے عین موافق ہے۔چونکہ قاعدہ ہے: تتبن الأشياء بضدّها، سو ہم شریعت اسلام
کے اس طریقہ اور دوسرے طریقہ کے درمیان موازنہ کریں گے۔
نکاح اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد: اسلام سے پہلے متعدد مذاہب مرد و عورت کے تعلق کو نا
مناسب تصور کرتے تھے۔ وہ اس تعلق کو قربت خداوندی اور تقوی کے منافی تصور کرتے
تھے۔ اسلام سے پہلے عربوں میں نکاح کے جو
طریقے رائج تھے، وہ انسان کو حیوانات کی صف میں لا کھڑا کئے تھے ۔ انسانی سماج کو اس مقام پر پہنچادئے تھے کہ اس کی خاندانی شناخت بھی گم ہو جائے۔
چنانچہ عرب میں نکاح کی چار صورتیں تھیں ۔ (۱) نکاح
استبضاع: یعنی شوہر اپنی بیوی کو اعلی خاندان کا بچہ حاصل کنے کی غرض سے کسی
دوسرے مرد کے پاس بھیج دیتاتھا۔ اور جب تک
وہ عورت اس سے حاملہ نہ ہوجاتی یہ
شخص اس سے ہم آغوش نہیں ہوتا۔ ([5])
(۲) نکاح رہط: ایک عورت متعدد مرد جن کی تعداد دس کے
اندر ہوتی تھی ہم آغوش ہوتے تھے۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو خاتون تمام مردوں کو طلب
کرتی اور کسی طرف اس بچے کو منسوب کردیتی اور جس کی طرف منسوب کرتی اس کے لئے مجال
انکار نہ ہوتا۔
(۳) وہی شکل جو آج کل پیشہ ور طوائف کا ہے۔ کہ جو بھی
چاہتا، ان کے پاس آسکتاتھا۔ اور یہ بد قماش عورتیں اپنی شناخت کے لئے اپنے
دروازوں پر جھنڈے نصب کئے رہتی تھی ۔ اگر یہ حاملہ ہوتیں اور بچہ پیدا ہوتا تو قیافہ
شناس ان کے جس گاہگ کے بارے میں فیصلہ کرتا، اسی سے بچہ منسوب ہوتا۔
لیکن اسلام نے ایسا طریقہ بتایا جس سے بہتر طریقہ کوئی اور
طریقہ کسی سماج کے لئے نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ
اس نے زنا اور غیر قانونی تعلق کو حرام قرار دیا ، ایسی بھی صورت کو روا نہیں رکھا
جس سے انسانی نسب تک مشتبہ ہوجائے۔ دوسری طرف نکاح کی نہ صرف اجازت دی، بلکہ اس کی باضابطہ
ترغیب بھی دی ہے۔ اسلئے کہ اگر انسان کی
فطری ضرورتوں کے لئے جائز اور قانونی مواقع پیدا نہیں کئے گئے تو ان کو غیر قانونی
راستے سے بچا نا دشوار ہوگا۔ ([6])
اب ہم خود نکاح اور اس کے متعلقات پر غور کریں گے ، تاکہ ہمیں معلوم اس کی جنسی تسکین
کا فطری طریقہ کے علاوہ اور کوئی طریقہ
نہیں ہوسکتا۔
نکاح اور متعلقات نکاح انسان کی فطری تقاضوں کے مطابق ہے: اگر ہم نکاح کو
چاروں طرف سے دیکھیں تو ہمیں یہ چیز نظر آئے گی کہ نکاح کی مشروعیت کی
حکمت اس کے اراکین، اور ان کے مقاصد سب کے سب انسان کی فطری تقاضوں کی تکمیل کے لئے ہیں۔
چنانچہ حکیم الہند حضرۃ الامام شاہ ولی اللہ الدہلوی ؒ نے اپنی عظیم کتاب ۔جو کہ حجۃ اللہ البالغۃ ہے
اسماً ومعنًا۔ میں نکاح کی مشروعیت کی
حکمت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ۔ إن حاجة
النكاح أوجبت ارتباطاً واصطحاباً بين الرجل والمرأة.([7])جس سے پتہ چلتا ہے کہ نکاح کی حاجت انسان کی فطرت میں سے
ہے۔کس طرح ہے؟اس کی تفصیل اسی کتاب کی دوسری جگہ میں اس طرح لکھتے ہیں:
أن المني إذا كثر تولده في البدن، صعد بخاره إلى الدماغ،
فحبّب إليه النظر إلى المرأة الجميلة، وشغف قلبَه حبُّها ، ونزل قسط منه إلى الفرج
، فحصل الشبق...
([8]) پھر لکھتے ہیں : وهذا حجاب
عظيم من حجب الطبيعة ، يمنعه من الإمعان في الإحسان ، ويهيجه إلى الزنا ، ويفسد
عليه الإخلاق ، ويوقعه في مهالك عظيمة من فساد ذات البين ، فوجب إماطة هذا الحجاب
.
([9]) پھر اس حجاب کو دور کرنے کا طریقہ
بتاتے ہوئے فرمایا: فمن استطاع الجماع... فلا أحسن له من التزوج.([10])
نکاح کے علاوہ مرد و زن دوسرا جسمانی تعلق کو ‘‘زنا’’ کہا جاتاہے ۔ اگر ہم نکاح
کے مقاصد کی طرف نظر دیں گے تو یہ بات
واضح ہوجائے گی کہ انسان کی اس فطری ضرورت
کی تکمیل کے لئے نکاح ہی کو منتخب کیا
گیا۔ اور ‘‘زنا ’’کو حرام کیاگیا۔
نکاح ہی کو جائز قرار دیکر زنا کو حرام کرنے کی حکمت: یہ ہے کہ انسانیت
کے لئے مفید ترین طریقہ نکاح کے علاوہ کوئی طریقہ ہی نہیں، اور زنا کے پیچھے
ہزاروں قسم نقصانات ہیں۔ ان حقیقتوں کو حضرۃ الامام الدہلوی ؒ کی زبانی سنئے: حضرۃ
الامام ؒ لکھتے ہیں : کچھ ایسے عادات اور طرز زندگی ہیں جو شہری نظام کو برباد
کردیتی ہے۔ اور وہ تیں طرح کی ہوتے ہیں: ان میں ایک ہے شہوانی اعمال، جس کا سر چشمہ ہے ‘‘شہوت’’۔ اور ان شہوانی اعمال میں سے ‘‘زنا’’ قسم اول کے قبیل سے ہے۔یعنی ‘‘زنا’’ ایسا عمل ہے جو عام شہری نظام کو برباد کردیتا ہے۔ حضرۃ
الامام ؒ نے اس کو ایک حسی مثال سے سمجھایا، وہ لکھتے ہیں: کہ مرد انسان شہوت،
غیرت اور لالچ میں جانور مردکی مشابہت
رکھتا ہے، پھر مرد انسان جانور مرد کی طرح
مادہ یا عورت کی طرف مائل ہوتاہے، اور اپنے موطوہ پردوسرا کسی کا تزاحم کا برداشت نہیں
کرتاہے۔ لیکن فرق یہ ہے، جانور مردوں مادہ کے سلسلے
میں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، جو کامیاب ہوتاہےوہ مادہ اسی کی ہوتی ہے۔چونکہ انسان ہوشیار ہے کہ اسکی گمان بھی
دیکھنا اور سننا جیسا ہے۔ سو ان کو الہام کیا گیا، کہ انسان کا آپسی لڑائی اپنے
شہروں کو برباد کردے گی، اس لئے تمدن کے آپسی تعاون کا ہونا ضروری ہے۔ اور تمدن
کی ترقی میں عورتوں سے مردوں کی ہاتھ زیادہ
، مرد کو عورت کےلئے نہیں، بلکہ عورت کو
مرد کے لئے اختصاص کی جانی چایئے کہ کسی کی
خاص عورت میں دوسرا انسان مزاحمت نہ کرے۔ ورنہ لڑائی جھگڑا سے مرد ختم ہوجائیں گے، اور نظام تمدن درہم
برہم ہوجائیگا۔ اور زنا میں اس فطری نظام کو تھوڑنا ہوتاہے، جس کی وجہ سے سماج میں
بربادی آتی ہے۔
اسی طرح ہم جنس پرستی
کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔اس کی حکمت و
راز کے بار ے میں حضرۃ الامام الدہلوی ؒ لکھتے ہیں: انسان کی فطرت سلیمہ کا تقاضا یہ ہے
کہ وہ عورت میں رغبت کرے، نہ کہ مرد میں، جیساکہ جانوروں بھی یہی بات پائی جاتی
ہے۔لیکن بعض آدمی غلبۂ شہوت کی وجہ سے اس
جانور کی طرح بن جاتا ہے، جو اپنی فطرت سے
ہٹے ہوئے ہوتاہے کہ مرد ہی سے شہوت پورا
کرلیتا ہے۔ یہ عمل ایسا ہے جیسا کہ فطرت کے مخالف ایک آدمی مٹی کھاکر ضرورت پورا
کتاہے۔ ([11])
خلاصہ یہ ہوا: کہ نکاح اور نکاح کے متعلق چیزوں میں جس کو بھی دیکھیں ، اس کے
پیچھے آپ کو ایک عجیب غریب حکمت معلوم ہوگی، جس سے پتہ چلتا ہے، کہ نکاح کا یہ
نظام انسانی فطرت کے عین موافق ہے۔ پس ہم ببانگ بلند کہ سکتے ہیں کہ : ‘‘نکاح’’
انسان کا فطری تقاضہ شہوت کی تکمیل کا فطری طریقہ ہے ۔