منگل، 3 مارچ، 2015

معاشرہ کا ایک کمزور فرد "ولد الزنا " کے ساتھ اسلام کا ذمہ دارانہ معاملہ Justice of Islam with A Son of adultery, who's counted a weak person in society

0 تبصرے
بسم اللہ الرحمن الرحیم

معاشرہ کا ایک کمزور  فرد "ولد الزنا " کے ساتھ اسلام کا ذمہ دارانہ معاملہ
زنا کے با رے اقوام عالم کا  معاملہ:
دنیا کے ہر قوم اپنی اپنی زندگی کو پر امن طریقے سے گزارنا چاہتی ہے ، وہ اپنی تمدن میں وہ کام اختیار کر تی ہے جو معاشرہ میں امن و سکون لاتا ہے، اور ہر اس کام سے بار رہتی ہے جس سے معاشرہ میں بگھاڑ آتاہے، من جملہ بگھاڑ پیدا  کرنے والا کاموں میں سے ایک ہے "زنا"۔ دو اجنبی کی جسمانی ملاقت کو "زنا"  کہتے ہیں۔دنیا کے ہر مہذب اور مثقف قوم اس بات پر متفق ہے کہ یہ ایک ایسا کام ہے  جس  سے خاندان، سماج، دیش میں بگھاڑ پیدا ہوکر امن وسکون ختم ہوجاتا ہے۔
اسی لئے ہر ہر قوم کے پاس اس کام کو روکنے کی کچھ تدبیر اوراصول ہیں، مگر سب سے زیاد جامع اصول وہ ہیں جو مذہب  اسلام  نے اپنائے ہیں ۔ اس نے صرف "زنا" پر  ہی نہیں ، بلکہ "سد ذرائع کے قاعدے کے مطابق اس برا کام کے مقدمات پر  بھی پابندی عائد کی۔چنانچہ انسان کو  اس کام کے قریب  کرنے والی سب سے پہلی چیز "آنکھ" کو اجنبی سے بچانےکاحکم، پھر دوسری چیز: عورت کو بنوار سنگار کرکے  اور اس کو ظاہر کرتے ہوئے باہر نہ جانے کا حکم، تیسری چیز : اجبنی مرد و عورت خلوت میں نہ رہنے کا حکم سمیت اور بہت سارے احکام جاری کیں ہیں  جنکا مقصدنسان کو اس گھناوَ نے عمل کے قربت سے بھی بچایاجائے، اگر کوئی –خدا نخواستہ- اس عمل کا  ارتکاب کرلیا تو اسکو سر عام سخت سزا  کا حکم دیا گیا، تاکہ دوسرے اور کسی  کو اس  کام کی ہمت بھی نہ ہو۔ولد الزنا کے بارے  میں کیا معاملہ ہونا چاہئے:
ان سارے باتیں کے بعد اگر  کوئی اس کا ارتکاب کیا ، اس پر سزا بھی ہوئی مگر: کبھی کبھی اس عمل کے نتیجہ کے طور پر جو بچہ وجود میں آتاہے جسے  "ولد الزنا" کہا جاتا ہے  اسکا کیا کیا جائے؟؟؟
دو مسلم قاعدے ہیں ،  جن میں ہر یک اس ولد الزنا میں الگ الگ معاملہ کا تقاضا کرتاہے۔ ان میں   کا ایک قاعدہ ہے کہ " دو  بری چیزیں مل کر  جو چیز بنتی ہے ، وہ بھی بری ہوا کرتی ہے۔  یہ ایک قاعدہ ہے، ایک مرد اور عورت مل کر زنا کرتاہے جو کہ ہر مذہب کے نزدیک ایک ناپاک عمل ہے، پس اس نا پاک عمل سے جو بچہ پیدا ہوتاہے وہ معاشرہ میں ایک متنفر شخصیت ہونا  قاعدہَ مذکورہ کا  عین موافق ہے۔جس کو ملا علی قاریرحنے  اس طرح بیان کیا:إن النطفة إذا خبثت خبث الناشئ منها.([1]) یہی وجہ ہے کہ معاشرہ کے لوگ کی فطرت میں یہ بات  پا ئی جاتی ہے  کہ وہ ولد الزنا کو نفرت بھرے نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
دوسری طرف دنیا کے ہر قوم کے یہاںاور ایک قاعدہ  مسلم ہے کہ جرم کی سزا  کا مستحق  صرف مرتکب جرم ہی ہوا کرتاہے۔دوسرے ایسے کسی  فرد پر سزا لاگونہیں کی جاتی ہے،  جس نے اس جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو، سو اس قاعدے کی رو سے ولد الزنا کو ماں باپ کے عمل کا سزا دینا کتناہی نا انصافی کی بات ہے؟؟
یہ دونوں مسلم قاعدے  "ولد الزنا "کے بارے میں ٹکرارہے ہیں، کہ پہلا قاعدہ کا تقاضا ہے کہ ولد الزنا کو متنفر اور  ایک ناپاک شخص شمار کیاجائے، اور اس میں معاشرے کی فطرت کی رعایت ہے۔ اور دوسرا قاعدہ کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو بھی معاشرے کے دیگر افراد کی طرح دیکھا  جائے ، اور معاشرے کو سختی سے منع کردیا جائے کہ تمہاری فطرت  اپنی جیب میں رکھو، کہ تمہاری فطرت اس بے قصور کو نفرت کی آنکھ سے دیکھتی ہے۔  اور اس صورت میں "ولد الزنا" کی رعایت ہے۔اس صورت  حال میں کیا جائے؟ اس لئے ہر یک کی رعایت کی جانا انکا حق ہے۔اور یہ  کسی مسئلہ کا ایک مشکل مرحلہ ہوتاہے، جب اس میں دو مسلم چیزیں ٹکراتے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں مذہب ایک اس مشکل راہ کا رہبر بن کر ظاہر ہوتاہے۔مذہب اس مشکل کو آسانی سے حل کردیتاہے، مگر یہاں یاد رہے کہ اس مہم میں صرف وہ مذہب ہی سو فیصد کامیاب ہوسکتاہے، جس کی تعلیمات "بحذافیرها" محفوظ ہیں۔ آج دنیا میں صرف مذکورہ صفت کا حامل ایک مذہب ہے، وہ  ہے مذہب اسلام۔  آنے والے سطور میں ہم دیکھیں گے اسلام اس مشکل کا کیا حل ڈھونڈ نکالا؟ علا وہ ازیں ہم یہ بھی جانیں گے کہ جس  اسلام کی عام عادت کہعموماً  ہر طبقہ کے ساتھ  عدل و انصاف کا معاملہ،  اور خصوصاً  ہر کمزور  طبقہ کے ساتھ شفقت و رحمت کا معاملہ کرتا ہے  اس ولد الزنا کے ساتھ کیا معاملہ اختیار کیا ہے جس کو معاشرہ ایک نکما فرد شمار کرتا ہے۔
اسلام کا ولد الزنا کے ساتھ معاملہ:
اسلام سے مذکورہ دونوں قاعدے میں سے   ہریک کا پورا پورا لحاظ رکھ کر  ایسے احکام مشروع کیا کہ معاشرے کے لوگوں کی فطری تقاضے پر چوٹ نہ لگے، چنانچہ  "ولد الزنا " کی  امامت نماز مکروہ قرار دی گئی۔ تاکہ لوگوں کو اپنی نفرت کا اظہار نہ کرنا پڑے۔ اگرچہ اسے  لائق ہونے کی صورت میں امامت کرنے کی اجازت ہے۔اسی طرح زنا کی ثبوت پر اسکی شہادت کا اعتبار نہ کرنا اسی قبیل سے ہے، تا کہ شہادت کا حق دیدیا جانے کی صورت میں معاشرہ کو اعتراض ہوسکتاہے۔
اس کے ساتھ دیگر ایسے احکام بھی  پائے جاتے ہیں اس کمزور بے قصور کی انسانیت کو محفوظ کرتے ہیں۔ چنانچہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام اس کے ساتھ سختی کا معاملہ نہیں کیا،  کہ ایک دم سے فرماتے:لا يدخل ابن الزنا في جماعة الرب حتى الجيل العاشر. ([2])
بلکہ اسلام اس کے ساتھ ذمہ دارانہ معاملہ کیاہے،   آیت کریمہ  :إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ9([3])کے موافق اگر وہ متقی ہوں ، تو  وہ بھی اللہ تعالی کے ہاں  اعلی  مقام حاصل کرسکتاہے۔ مگر چونکہ انکی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی، وہ گنوار بن کر رہ جاتاہے، جس کی وجہ سے وہ بڑے ہوکر ممنوعات کا ارتکاب کرنے والوں میں سے بن جاتاہے، شریعت اگر کوئی سخت موقف اپنائی تو اس کے پیچھے یہی وجہ تھی ۔
 سو اگر ایسا کوئی نص نظر آئے جس میں ولد الزنا  کے عزت پر چوٹ لگ رہاہے، تو وہاں کوئی خاص پس منظر،  خاص وجہ یا کوئی خاص حکمت ہوتی ہے، مثلاً: - آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : لأن أقنع بسوط في سبيل الله أحب إلي من أن أعتق ولد: شارحین اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ  جب آیت کریمہ :فَلا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَمَا أدراك ما العقبة فكرَقَبَةٍ9([4]) نازل ہوئی ، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ہمارے پاس آزاد کرنے کے لئے کوئی چیز نہیں ہے، الا یہ ہمارے خدمت انجام دینے کے لئے جو لونڈیاں ہیں ان کو  زنا کے حکم کریں اور وہ اولاد لے کے آئیں تو ہم انہیں کو  آزاد کرسکتے ہیں۔ اسی وقتآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: جس چڑھی سے میں اللہ کی راہ میں جہاد کرتاہوں وہ میرے پاس بہت اچھا ہے اس با ت سے کہ میں کسی لونڈی کو زنا کا حکم کروں اور جوبچہ جنے اسکو آزاد کروں۔([5])
یا تو یہ ارشاد اس ولد الزنا کے بارے میں ہے جو : اپنےماں باپ کی راہ پر چلتاہے، سو اس میں خرابی ہی خرابی ہے، اس کو آزاد کر نے سے معتد بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں  ہوگا، ایسے شخص کو آزاد کرنے سے تو  وہ چڑھی ہی  اچھی ہے، جس سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا گیا ہو۔ ([6])یہی وجہ ہے  کہ اگر کسی نے ان جملوں اور نصوص میں اس خاص پس منظر کا لحاظ کئے بغیر ظاہری معنی مراد لیتاہے تو  اکابرین امت کی طرف سے اس پر نکیر وارد ہوتا، مثلاً: ولد الزنا کے بارے میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشاد گرامی: ولد الزنى شَرُّ الثَّلاثَةِ. ([7])جب بھی کوئی اس ارشاد لکے پیچھے کا خاص واقعہ کو نظر انداز کرکے اس کو عموم پر اطلاق کرتے  حضرت  عبد اللہ ابن  عمر رضی اللہ عنہ کو سنائی دیتا، تو آپ اس پر نکیر کرتے ہوئے فرماتے:بل هو خير الثلاث.([8])
وہ  خاص واقعہ یہ ہے:  دراصل آپ  کا ارشاد ایک خاص شخص کے بارے میں تھا جو آپکو ستاتھا ، آپ نے صحابہ کرام سے عرض کیا: کہ  اس سے کوئی نپٹ سکتاہے؟ کسی  نے کہا: یا رسول اللہ یہ تو گستاخ ہونے کے ساتھ ساتھ حرامی بھی ہے، اس وقت آپ نے مذکورہ ارشاد فرمایا کہ یہ تین بروں -یعنی زانی ، زانیہ، اور ولد زنا - میں سب سے برا ہے،([9])
خلا صہ یہ ہے  کچھ احکام میں معاشرہ کی فطرت کی قدر کی ، لیکن اگر معاشرے کا کوئی فرد اس کی اہانت کرے تو اسلام کبھی اس کو  برداشت نہیں کرتا ہے۔
انسانی حقوق کے میں دوسرے عام حلال آدمی اور یہ برابر ہے:
یہی اسلام میں   احکام ایسے ہیں جس اس بے فرد کی انسانیت کی حفاظت کی گئی ہے۔کہ جملہ انسانی حقوق میں وہ ایک حلال فرد کے ساتھ شریک ہیں،  اسلام نے اسکو ایک مقام خاصدیا ہے۔  جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے ثابت ہوتاہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت نے اس فعل حرام کا  ارتکاب کیا تھا ، اور وہ حاملہ بن گئی، جب اس پر سزا جاری کر نے کا وقت آیا، تو آپ نے اس کا چبہ کی ولادت  تک سزا کو موَخر کیا،  تاکہ بچہ جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو وہ محفوظ رہے، اور اس دنیا میں آنے کا اسکو جو حق ہے وہ سلب نہ ہوپا ئے۔ جب وہ بچہ پیدا ہوگیا ، اور سزا جاری کرنے کی بات آئی تو آپ نے بھر سے تاخیر کی ، اسلئے  کہ اس بچہ کو دودھ پیلانے کیلئے اس کی ماں کی اب بھی ضرورت ہے۔ حتی کہ جب وہ بچہ غذا لینے کا لائق بن گیا  اور اس عورت کی ضرورت باقی نہ رہی تب جاکر اس پر حد جا ری کی گئی، اور اس بچے کو ایک مسلم آدمی  کا حوالہ کردیاگیا۔ ([10])
علاوہ ازیں ایسے سینکڑوں شواہد ہیں جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ اسلام نے "ولد الزنا " کو ویساہی چھوڑ نہین دیا بلکہ اس کے حق ایک ذمہ دار سر پرست سا معاملہ کرکے پھر ایک بار ثابت کیا : اسلام عدل و مساوات کا دھرم ہے۔ چنانچہ جب آپ شواہد کی تلاش میں اسلام پر نظر دالیں گے تو اسلام کے نبی، نبئ رحمت  کو انتہائی احترام کے ساتھیہ کہتے ہوئے سنیں گے: فَلَا نَرْجُمُكِ حَتَّى تَضَعِي مَا فِي بَطْنِكِاورلَا نَرْجُمُهَا وَنَدَعُ وَلَدَهَا صَغِيرًا لَيْسَ لَهُ مَنْ يُرْضِعُهُ. ([11])
اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس حکم کو سنیں گے:«عَنِ ابْنِ عُمَرَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنْ نَمُنَّ عَلَى أَوْلَادِ الزِّنَا - يَعْنِي: فِي الْعِتْقِ». ([12])
 آپ کو امیر  المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس  بچے کی  مستقبل کو لیکر فکر مندنظر آئیں گےجب  آپ امیر المومنین کو یہ  فرماتےہوئے سنیں گے:«أَعْتِقُوهُمْ وَأَحْسِنُوا إِلَيْهِمْ»([13])
چوتھا امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس بچے کے لئے ایک سرکاری رول  بناتے ہوئے دیکھیں گے کہ اس کو ان فردوں میں لاحق کیا گیا جن کو ماہانہ سو کرکے وظیفہ ملتاتھا: عَنْ مُوسَى الْجُهَنِيِّ، قَالَ: «رَأَيْتُ وَلَدَ زِنًا أَلْحَقَهُ عَلِيٌّ فِي مِائَةٍ». ([14])
عنہ کو ان سار باتوں سے ہم اس نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں کہ اسلام نے معاشرے کے اس کمزور فرد کے کیا  ذمہ دارانہ معاملہ کیا، جس صاف طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام عدل و مساوات کی تعلیم دیتاہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اسلام کی تعلیم سمجھ کر اس کو بروئے کار لان کی کوشش کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔





([1]). مرقاة المفاتيح، ج6، ص2389
([2]). التوراة، سفر التكوين،
([3]).  سورة الحجرات، 13
([4]). سورة البلد، الآية 11-13
([5]).الإجابة لما استدركت عائشة على الصحابة، أبو عبد الله محمد بن عبد الله الزركشي، مكتبة الخانجي - القاهرة
ط 1: 1421 هـ - 2001 م، ج1، ص108-112
([6])٫الكتاب: شرح سنن أبي داود، المؤلف: عبد المحسن بن حمد بن عبد المحسن بن عبد الله بن حمد العباد البدر
مصدر الكتاب: دروس صوتية قام بتفريغها موقع الشبكة الإسلامية، الجزء ، 445، ص13
([7]).   سنن أبي داود، (ط1:- 1430 هـ - 2009 م،  دار الرسالة العالمية)، ج6، ص96
([8]). معالم السنن، ج4، ص81
([9]).الإجابة لما استدركت عائشة، ج1، ص109

([10]).النووي: يحيى بن شرف النووي ت( 676  ه): صحيح مسلم بشرح النووي،الناشر: المطبعةالمصريةبالأزهر،ط( 1)،سنة: 1347 ه/ 1929 م،ج 11 /ص202
([11]). السنن  الكبرى، ج6، ص 426الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، ط: 1، 1421 هـ - 2001 م
([12]). المعجم الأوسط، ج9، ص162
([13]). مصنف عبد الرزاق، ج7، ص457، والبيهقي، ج10، ص101
([14]). مصنف ابن أبي شيبة، ج4، ص439

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔